پاکستان اور بھارت کے مابین میچ منعقد ہو بھی پائے گا یا نہیں؟، ملین ڈالر کے سوال جواب نے براڈ کاسٹرز اور آئی سی سی کی نیندیں اڑا دیں۔
آئی سی سی کی جانب سے جاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پاکستان اور انڈیا کے درمیان کھیلے گئے متعدد میچز تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے میچوں میں سے ایک رہے ہیں۔ اس کا کمرشل ایئرٹائم ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے پاک بھارت ممالک کے درمیان ایک تاریخی پسِ منظر ہے۔ دونوں ہی ممالک کی آبادی اچھی خاصی ہے اور جو لوگ عموماً کرکٹ نہیں بھی دیکھتے وہ انڈیا پاکستان میچ ضرور دیکھتے ہیں اس لیے دونوں اطراف برانڈز یہی چاہتے ہیں کہ اُن کا اشتہار زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے، اس لیے انڈیا پاکستان میچ کے کمرشل ایئر ٹائم کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔’نیویارک میں کھیلے گئے انڈیا پاکستان میچ میں 10 سیکنڈ سلاٹ کی قیمت 50 لاکھ تک چلی گئی تھی۔ 2023ء کے ون ڈے ورلڈ کپ میں ایک 10 سیکنڈ کے سلاٹ کی قیمت 60 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔‘ یعنی ایک منٹ کا کمرشل ایئرٹائم لگ بھگ تین کروڑ 60 لاکھ کے قریب۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ براڈ کاسٹرز کی جانب سے عموماً میچوں کے 80 فیصد کے قریب منٹس ٹورنامنٹس سے پہلے ہی فروخت کر دیے جاتے ہیں اور بعد میں 20 فیصد کی قیمت میچ کی اہمیت کے اعتبار سے بڑھائی یا کم کی جاتی ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ میں سلاٹس کا جائزہ لیا جائے تو عموماً ممبئی اور چنئی کے درمیان میچ کے 10 سیکنڈ سلاٹ کی قیمت 30 سے 40 لاکھ کے درمیان چلی جاتی ہے۔ پاکستان میں انڈیا پاکستان میچ کے لیے ایک منٹ کے سلاٹ کی قیمت حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے میچ کے لیے 40 لاکھ تک تھی جبکہ 2019ء کے ورلڈ کپ میچ میں یہ قیمت 60 لاکھ تک چلی گئی تھی۔ یاد رہے کہ 2023ء میں پی سی بی کو آئی سی سی کی جانب سے 17 ملین ڈالر کی رقم دی گئی تھی جو تقریباً ساڑھے 4 ارب کے آس پاس بنتا ہے۔ یہ رقم آئی سی سی نے براڈ کاسٹنگ ڈیلز اور آئی سی سی ٹورنامنٹس سے کمائی ہوتی ہے اور اسے تمام ممالک میں ایک ماڈل کے تحت تقسیم کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آئی سی سی ٹورنامنٹ کو براڈ کاسٹرز کے لیے منافع بخش بنانے کے لیے آئی سی سی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ یقینی بنانا ہوتا ہے۔ تاہم بی بی سی کا کہنا ہے کہ انڈیا کو براہ راست اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انڈیا اور پاکستان آپس میں کھیلتے ہیں یا نہیں۔ 2017ء کی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان نے انڈیا سے گروپ مرحلے میں شکست کھائی تھی لیکن فائنل میں انڈیا کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ تاہم اس ایونٹ سے پہلے تو پاکستان کی اس میں شرکت پر بھی سوالیہ نشان تھے کیونکہ اس وقت پاکستان آئی سی سی رینکنگز میں پہلی 8 ٹیموں میں شامل نہیں تھا۔ اُس وقت کے آئی سی سی چیئرمین ڈیو رچرڈسن نے ایونٹ سے پہلے برطانوی جریدے ’ٹیلی گراف‘ سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ آئی سی سی اِس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک ہی گروپ میں رکھا جائے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ ( میچ) آئی سی سی کے نقطۂ نظر سے انتہائی اہم ہے۔ یہ دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے اور مداح ابھی سے اس کا انتظار بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ کے لیے بھی بہترین ہے کیونکہ یہ اس کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے اہم ہے۔‘ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں براڈکاسٹرز مختلف طریقوں سے کماتے ہیں جیسے انڈیا میں سبسکرپشن اور ایڈورٹائزنگ وہ 2 طریقے ہیں جن کے ذریعے براڈکاسٹر پیسے بناتے ہیں۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی مارکیٹس میں سبسکرپشن کی اہمیت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں ایڈورٹائزرز اور کمرشل ایئر ٹائم اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ انڈیا میں براڈکاسٹرز کے لیے 60 سے 65 فیصد رقم ایڈورٹائزرز سے آ رہی ہے لیکن سبسکرپشن کی رقم کا بھی 30 سے 35 فیصد حصہ ہوتا ہے۔تاہم پاکستان میں ایڈورٹائزرز سے ملنے والی رقم ہی سب کچھ ہوتی ہے اس لیے یہاں آپ کو میچ کے دوران اشتہاروں کو کسی نہ کسی طرح فٹ کرنے کی جدوجہد دکھائی دیتی ہے۔ انڈیا آئی پی ایل کے باعث امیر ترین بورڈ ہے۔ انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی ابھی انڈیا کے میچوں کے لیے براڈ کاسٹ ڈیل 720 ملین ڈالر کی ہوئی ہے، جس میں 88 میچ شامل ہیں یعنی ہر میچ 8.1 ملین ڈالر کا ہے۔ اس معاہدے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیریز شامل نہیں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی اگلے ڈھائی سال کے لیے کی گئی اپنے 60 میچوں کی براڈکاسٹ ڈیل کی کل لاگت لگ بھگ 6.5 ملین ڈالر ہے۔جو انٹرنیشل رائٹس کی رقم ملا کر 9 ملین ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ یعنی 60 میچوں کی 9 ملین ڈالر کی لاگت اور انڈیا کا ایک میچ 8.1 ملین ڈالر کا۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ چند ہی روز میں بی سی سی آئی چیف جے شاہ آئی سی سی چیئرمین بن جائیں گے۔ تاہم براڈ کاسٹر کے ساتھ آئی سی سی کا مسئلہ یہ ہے کہ جب رائٹس خریدنے کی بات ہوئی تھی تو سٹار انڈیا نے 3.1 ارب ڈالر کے اگلے 4 سال کے آئی سی سی ٹورنامنٹس کے رائٹس خریدے۔ تاہم اگلی بولی 1.7 ارب ڈالر کی تھی، جو مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے بہت کم تھی۔ تاہم سٹار کی جانب سے زیادہ بولی لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا زی انڈیا کے ساتھ مبینہ خفیہ معاہدہ تھا اور سٹار نے ٹی وی رائٹس زی کو بیچنے تھے اور ڈیجیٹل ہاٹ سٹار کے پاس رہے گا۔ تاہم ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے قبل زی نے معاہدے کے مطابق سٹار کو رقم نہیں دی اور سٹار نے یہ معاہدہ ختم کرتے ہوئے زی کو ہرجانے کا نوٹس فائل کر دیا اور یہ کیس لندن میں چل رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اس طرح نہیں ہو سکا جس طرح امید کی جا رہی تھی۔ اس میں سٹار کو نقصان اٹھانا پڑا، کیونکہ متعدد میچ بارش کے باعث منسوخ ہوئے اور اکثر میچ انڈیا کے ٹائم زون کے اعتبار سے صحیح وقت پر نہیں ہو سکے۔ یہ سب ایک ایسے ٹورنامنٹ میں ہوا جہاں پر انڈیا چیمپئن بنا۔ ایسے میں ماہرین کے مطابق براڈ کاسٹرز انڈیا پاکستان میچ بھی نہ ہونے کے سبب آئی سی سی سے اس 3.1 ارب ڈالر کے معاہدے میں مزید رعایت مانگے گا اور میچ نہ ہونے پر مزید شور مچائے گا کیونکہ گزشتہ ایک دہائی سے ہر آئی سی سی ٹورنامنٹ میں یہ میچ لازمی کھیلا جاتا ہے۔ اس دوران آئی سی سی ایک انتہائی مشکل صورتحال کا شکار ہے اور یہ بات اب خاصی واضح ہے کہ براڈکاسٹر کو رعایت دینے سے بی سی سی آئی کو تو فرق نہیں پڑے گا، لیکن آئی سی سی کی جانب سے جو رقم دیگر بورڈز میں تقسیم ہوتی ہے اس میں ضرور کمی آئے گی اور اس کا نقصان پاکستان سمیت ایسے بورڈز پر پڑے گا جو آئی سی سی کی جانب سے دی گئی اس سالانہ رقم پر انحصار کرتے ہیں۔