اسلام آباد (نیشن رپورٹ / قسور کلاسرا) پاکستان جہاں ”جس کی لاٹھی اسکی بھینس“ کے محاورہ پر ہو بہو عمل کیا جاتا ہے۔ بے شمار اہل افراد نوکریاں حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ سیاسی بنیادوں پر حکومت میں شامل افراد کے من پسند افراد ان عہدوں پر قابض ہو جاتے ہیں جس کے لئے وہ اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اسی چیز کا شکار یمن میں تعینات ڈپٹی ہیڈ آف مشن محمد علی سروہی کے ساتھ ہوا ہے جن کا تبادلہ نائیجریا کے دارالحکومت ابوجا میں پاکستانی مشن میں بطور فرسٹ سیکرٹری کردیا گیا حالانکہ ابوجا میں پاکستانی ہائی کمشن میں پہلے ہی سفیر تعینات تھے اور کام کر رہے تھے۔ جب محمد علی سروہی ابوجا پہنچے تو وہاں سفیر نے انہیں ان کے عہدے کا چارج دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب یہاں پوسٹ ہی موجود نہیں تو وہ انہیں کس طرح چارج دے سکتے ہیں۔ اس تبادلے سے جہاں بے اصولیاں ہوئیں وہاں حکومت پاکستان کو 85 ہزار امریکی ڈالر کا نقصان بھی ہوا جو یمن سے محمد علی سروہی کے ابوجا جانے کے لئے بطور کرایہ اور سفر خرچ انہیں دیا گیا۔ محمد علی سروہی نے بتایا ہے کہ یہ سب کچھ یمن کے دارالحکومت صنعا میں پاکستانی ہائی کمشن میں تعینات سفیر کی سازش کے نتیجے میں ہوا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے یمن میں پاکستانی سفیر کو موصول ہونے والے نوٹس کے بعد انہوں نے یہ سازش کی اس نوٹس میں اومان میں انہیں یہ نوٹس تین سال سے زائد عرصے سے قید پاکستانی ماہی گیروں کے لئے کوئی کام نہ کرنے پر جاری کئے گئے تھے۔ اب وہ نہ اومان میں تعینات ہیں اور نہ ہی ابوجا میں اور ایڈیشنل سیکرٹری ایڈمنسٹریشن نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے فوری طور پر یمن میں اپنے عہدے کا چارج چھوڑ کر ابوجا میں رپورٹ نہ کی تو انہیں سزا کے طور پر واپس پاکستان بلا لیا جائے گا۔