مکرمی! مجھے یاد ہے لاہور میں اومنی بس سروس چلتی تو مسافر ریگل سٹاپ، سٹیشن انکوائری کچہری انکوائری پر آویزاں ٹائم ٹیبل کے مطابق جب بروقت بس آتی تو لوگ اپنی گھڑی کا وقت درست کر لیتے، تب کے مسافر خواص تھے لیکن آج کے مسافر غربت و افلاس سے پسے ہوئے جن کی کوئی آواز نہیں اور یہ جو رقم کر رہا ہوں یہ تجربہ اور مشاہدے کی سچائی وہ لوگ جو ساتویں اور آٹھویں عشرے تک ان بسوں کے مسافر تھے وہ تائید کریں گے، مگر بیشتر لوگ یہ بھول چکے ہوں گے، اس وقت یہ بسیں ایک نظام کے تحت چلتی تھیںکہ 70ءکے عشرے تک اس ادارے کا کراچی سے پشاور تک ایک ہی”بابا“ تھا، اِس ادارے کا ماٹو، سستی سواری، بااخلاق عملہ، محفوظ سفر اور پابندی وقت، مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں راولپنڈی کے راجہ بازار اڈے پر لاہور آنے کے لئے بس کا منتظر تھا میں نے ٹکٹ خرید لیا تھا اور یہ آخری ٹائم تھا ایک مسافر نے اپنا سفر اگلے دن کے لئے ملتوی کر دیا مگر پرائیویٹ بس پر سفر نہیں کیا اور آج۔ لیکن آج یہ بھولی بسری داستان کہ آج وہ مسافر نہیں۔ آج کی بسوں کا کوئی شیڈول نہیں کہ کب چلنا اور کب پہنچنا درمیانی وقفہ کوئی نہیں، عوام کو سفری سہولت دینا نہیں شام کو ایک معقول رقم اکٹھا کرنا ہے شہر میں چار پانچ کمپنیاں بسیں چلا رہی ہیں، کسی سٹاپ پر انتظار کر کے تجربہ کریں، شام کو کہیں سات اور کہیں آٹھ بجے بسیں غائب ہو جاتی ہیں عوام بچارے۔ بےشک وزیراعلیٰ پنجاب عوام کی بہتر سفری سہولت کے لئے کوشاں ہیں اور میٹرو بس چلانے کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں جو بس کے چلنے تک محض سڑک بنانے پر ستر ارب خرچ ہو جائیں گے کاش اِس سے پہلے جو چل رہی ہیں انہیں کسی نظام الاوقات کا پابند کیا جائے، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور سیکرٹری ایل ٹی سی، کبھی اپنے سرد خانے سے نکل کر سٹاپ پر عوام کی مشکلات دیکھ لیں اور حل کا کوئی انتظام کر دیں بے شک یہ غریب (عوام نہیں) روزمرہ کے مسافر پاکستانی ہیں۔(ع - م - بدر سرحدی)