اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ مارک گراسمین نے گزشتہ رات ملاقات کی۔ قابل اعتماذ ذرائع کے مطابق ملاقات میں آرمی چیف نے امریکی نمائندہ پر واضح کیا پاکستان کسی بیرونی دبا¶ پر شمالی وزیرستان پر کوئی آپریشن نہیں کرے گا۔ پاکستان نے جب قومی مفاد میں بہتر سمجھا کہ کہاں آپریشن کرنا ہے تو اس کا فیصلہ کرے گا۔ امریکی نمائندہ سے ملاقات میں پاکستان افغان سرحدی علاقے کی صورتحال اور سرحد سے پاکستان کے اندر ہونے والی دراندازی اور حملوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون اور دوسرے سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاوہ ازیں وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے ملاقات کے دوران مارک گراسمین نے کہا ہے پاکستان اور امریکہ تعلقات محض سکیورٹی تعلقات تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک میں تعلقات ہمہ جہت ہیں۔ گراسمین نے کہا کہ دہشت گردی دونوں ملکوں کے لئے ایک لعنت ہے۔ دونوں نے مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ مارک گراسمین نے کہا امریکہ پاکستان کے ساتھ اعتماد پر مبنی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔ میں یہاں شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے دبا¶ ڈالنے نہیں آیا پاکستان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے مفاد میں کیا ہے۔ دریں اثناءپاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امریکی نمائندہ خصوصی سے بات چیت میں واضح کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دے رہا ہے اور وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتا ہے۔ وزارت خارجہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مختلف پہلو¶ں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان نے امریکی نمائندہ کو یقین دلایا پاکستان افغانستان میں امن کے قیام اور استحکام کے لئے بھرپور مدد دے رہا ہے۔
اسلام آباد (اے ایف پی + ثناءنیوز) پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی مارک گراسمین نے کہا ہے کہ ڈرون حملے بات چیت کا موضوع نہیں، تعلقات ٹریک پر آ گئے ہیں۔ سرکاری ٹی وی کو دئیے انٹرویو میں انہوں نے کہا امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے پاکستان پر دباﺅ نہیں ڈال رہا۔ پاکستان اور امریکہ افغانستان میں امن و استحکام اور سلامتی کے لئے کوشاں ہیں۔ معاشرے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے تعلیم کے فروغ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ملالہ پر قاتلانہ حملے سے امریکی عوام کو گہرا صدمہ پہنچا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں پاکستانی عوام دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کس حد تک متاثر ہے۔ ہم اس حوالے سے پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دن بدن بہتر ہو رہے ہیں، دونوں ممالک افغانستان میں امن و امان اور سلامتی کے لئے کوشاں ہیں اور یہ چاہتے ہیں افغانستان میں استحکام آئے۔ اس سے پاکستان میں امن و استحکام آئے گا۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے لئے م¶ثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا امن و استحکام کے لئے پاکستان افغانستان اور ایساف افواج کے درمیان بہتر تعاون ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنی گائیڈ لائن میں کہا ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے پاکستان پر کوئی دباﺅ نہیں ڈال رہا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ خود پاکستان نے کرنا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات موجود ہیں۔ وہ سرحدی معاملات کے حوالے سے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ 2014ءمیں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان فیصلے خود کریں گے۔ انہوں نے کہا دس سال پہلے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی آج کا افغانستان اُس وقت سے بہتر ہے۔ آج افغانستان میں معاشی ترقی ہو رہی ہے۔ عورتوں اور عوام کو ان کے حقوق دئیے جا رہے ہیں، معیار زندگی بہتر ہے، بچے سکول جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا صرف افغانستان نہیں بلکہ پورا خطہ اہم ہے۔ پاکستان امریکہ اور دنیا بھر سے افغان جنگ کے خلاف کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں جو جمہوری آزادی کے مطابق ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں اور آگے بڑھنے کا راستہ باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا 20 فیصد پاکستانی مصنوعات امریکہ برآمد ہو رہی ہیں۔ ہمیں سول سوسائٹی، معیشت سمیت دیگر دوسرے شعبوں میں اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔