میر تقی میر کا شعر ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
کچھ اسی طرح کا معاملہ میرے ساتھ بھی ہوا، مجھے حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ کے نظریات و تصورات کے حوالے سے جناح ہسپتال کے علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر علی چوہدری نے طلب فرمایا، انہوں نے اپنے اس کالج میں طلباءاور طالبات کے لئے بزم اقبال ایک طویل عرصے سے سجا رکھی ہے، ان کا خیال تھا کہ شاید یہ بدلتے ہوئے ملکی، سیاسی، نظریاتی اور قومی حالات و واقعات کی روشنی میں جو آئینی اور ژولیدہ فکری کا گرد و غبار چھا چکا ہے اور سیاسی منحوسانہ کھیل تماشا جاری ہے۔ میڈیکل کے طلباءاور طالبات کے قلوب و اذہان میں کچھ عصر حاضر اور آئندہ کے مستقبل کے لئے لائحہ عمل اور ترتیب و تنظیم کی جائے۔ یہ واقعی وقت کی اہم ضرورت ہوتی ہے کہ کم از کم طالب علموں کو ماضی، حال اور مستقبل کے لئے تیارکیا جائے۔ یہ قومی اہمیت کے امور نظریہ پاکستان ٹرسٹ 1992ءسے ادا کر رہا ہے اور اس کے چیئر مین پاسبان نظریہ پاکستان جناب مجید نظامی قومی اور نظریاتی فرائض ادا کر رہے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں کوئی اور بھی اس طرح کا ادارہ ہو جو اس طرح قومی، فکری نظریات کا علمبردار یا پاسبان ہو۔ حضرت قائد اعظمؒ ہمیشہ طلباءسے محبت و مروت کے جذبات رکھتے تھے اور کمال ہے کہ وہ ہر سال علی گڑھ تشریف لے جاتے اور یونیورسٹی کے طلباءکو خطاب فرماتے اور مستقبل کے لئے تیار فرماتے، مجھے ڈاکٹر ظفر علی چوہدری صاحب کی تجویز پسند آئی اور بہت سی تجاویز اور لائحہ عمل بھی انہوں نے فرمایا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے ساتھ ان کی جذباتی اور والہانہ عقیدت ان کے والدین سے عطا ہوئی۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کو علامہ اقبالؒ کے بے شمار اشعار ازبر ہیں اور یہی حال اور جذباتی کیفیات انہوں نے اپنے بچوں میں بھی پیدا کر رکھی ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان کا تمام کاررواں علمی، طبی اور دیگر ماہرین پر مشتمل ہے جو حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ کے ساتھ بے اندازہ اور کمال کی محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ طالبات کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر مشاہدہ صاحبہ جس عقیدت، لگاﺅ اور مستعدی کے ساتھ آج کی اور مستقبل کی لیڈی ڈاکٹرز کو ٹریننگ دے رہی ہیں یہ انہی کا ہی حصہ ہے۔ میں نے اس میڈیکل کالج کو جب دیکھا تو حیرت ہوئی کہ اتنے وسیع و عریض ہال کے چاروں اطراف حضرت علامہ اقبالؒ کے اشعار و افکار و نظریات اور حضرت قائد اعظمؒ کے فرمودات عالیہ آویزاں ہیں۔ ہال کے داخلی دروازوں پر حضرت قائد اعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ کی بہت بڑی خوبصورت تصاویر اس بات کی غمازی کی رہی تھی کہ پاکستان کا مستقبل درخشاں ہے۔ اور جب تک پاکستان کے طلباءاور طالبات میں پاکستان کی محبت و عقیدت موجود ہے، پاکستان کا مستقبل بھی درخشاں ہے۔ کاش کہ پاکستان کے دیگر تعلیمی اور میڈیکل ادارے بھی اسی طرح کا قومی فریضہ انجام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت نہ بن سکے۔ عالم اسلام کا قلعہ بھی بن سکتا ہے۔ اس میڈیکل کالج کے اساتذہ میں جو قومی اور نظریاتی ہم آہنگی نظر آئی، باکمال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر کیپٹن (ر) مبشر علی صاحب اور ڈاکٹر ریاض الرحمن صاحب اور ڈاکٹر حسنین صاحب کمال کے محب وطن ڈاکٹر نظر آئے کہ انہوں نے حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ کے حوالے سے کئی کتب کا مطالعہ رکھا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اسی لیے فرمایا تھا کہ:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے زمین و آسمان پر جس طرح کی سیاسی اور قومی لایعنیت اور انتشار و افتراق کی دھند چھائی ہوئی ہے ایک خطرناک بے چینی اور بے یقینی کا سماں ہے ہر شخص مضطرب اور پریشان، مستقبل کے حوالے سے شاکی لہٰذا آج اس شدید دکھ اور درد کے دور ابتلاءمیں قومی اداروں کے استحکام اور روشن مستقبل کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ ادارے میڈیکل کے ہوں، کالج، یونیورسٹیاں ہوں۔ قومی، دفاعی ادارے ہوں جب تک پاکستان کو حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ کے افکار و فرمودات کی روشنی میں پاکستان نہیں بنایا جائے گا۔ پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست نہیں بنایا جا سکتا۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے خوب فرمایا تھا:
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں!
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!