ائرمارشل (ر) اصغر خاں سولہ برس کے انتظار اور کوششوں کے بعد سپریم کورٹ سے اپنا مقدمہ جیت گئے۔ سپریم کورٹ نے انہیں عمر کے آخری حصے میں ایک ایسی خوشی دی ہے جو ان کے لئے طمانیت کا باعث ہو گی۔ 1990ءکے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے سب سے بڑے سیاسی حریف اصغر خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور انہیں انتخابات میںفوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا۔ اصغر خان سے بے نظیر نے درخواست کی کہ وہ نئے سیاسی اتحاد پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس میں شامل ہو جائیں اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے پی پی پی سے مل کر جدوجہد کریں۔ پیپلز ڈیمو کریٹک الا¶نس کے نام سے اپوزیشن اتحاد قائم کیا گیا۔ جس میں پی پی پی تحریک استقلال اور مسلم لیگ ملک قاسم گروپ شامل تھے۔
ائر مارشل (ر) اصغر خان کے صاحبزادے عمر اصغر خان نے بے نظیر بھٹو اورپی ڈی اے کے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے ایک کتابچہ تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا "How the Election was Stolen" یہ کتابچہ ایک ایڈورٹائزنگ کمیٹی نے شائع کیا تھا۔ اس کتابچے کو غیر ملکی سفارت خانوں کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے 1990ءکے انتخابات کے خلاف مسلسل ایک تحریک چلا رکھی تھی۔ بے نظیر بھٹو کا یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ایوان صدر میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے ایک سابق جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید رفاقت حسین کی سربراہی میں ایک خصوصی سیل بنایا گیا تھا جس نے انتخابی نتائج تبدیل کئے تھے۔
جب 1991ءمیں غلام اسحاق خان بطور صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر غلام اسحاق خان کے خطاب کے خلاف ایک پرشور احتجاج کیا اور ”گو بابا گو“ کے نعروں کے شور میں صدر غلام اسحاق خان کا خطاب دب کر رہ گیا تھا۔ خود بے نظیر بھٹو اس احتجاج کی قیادت کر رہی تھیں۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ماضی میں یہ وطیرہ رہا ہے کہ جن سیاست دانوں کووہ ”کلیئر“ کر کے اقتدار میں لاتی رہی ہے کچھ عرصہ بعد ان سے نالاں ہو کر اسے چلتا کرنے کے لئے ایک نئی منصوبہ بندی کا آغاز ہوتا رہا ہے۔
جنرل اسلم بیگ نے جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کے بعد مارشل لاءنہیں لگایا حالانکہ ایسا ماحول موجود تھا کہ وہ مارشل لاءلگا سکتے تھے۔ مارشل لاءنہ لگانے اور انتخابات کرانے پر ہی بے نظیر بھٹو نے جنرل بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا۔ 1990ءمیں جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو کچھ عرصہ میں خلیج کی جنگ شروع ہوئی۔ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ بھی خلیج کی جنگ کے لئے اپنی فوج بھیجے۔ سعودی عرب سمیت کئی ملکوں نے کویت سے عراق کا قبضہ ختم کرانے کے لئے فوج بھیجی تھی۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ پاکستانی فوج بھی خلیج کی جنگ میں بھیجی جائے لیکن فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے پی او ایف واہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (اس تقریب کی رپورٹنگ کرنے کے لئے یہ خاکسار بھی نوائے وقت کی طرف سے موجود تھا) سٹرٹیجک ڈیفائنس "Strategic Defiance" کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ پاکستان افغانستان اور عراق مل کر امریکہ کے خلاف ایک سٹرٹیجک اتحاد بنا سکتے ہیں اور امریکی دبا¶ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
جنرل بیگ کی اس تقریر کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئیں۔ وزیراعظم نواز شریف آرمی چیف سے سخت پریشان تھے۔ ایک سینئر سیاست دان کا یہ دعویٰ ہے کہ جنرل اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کو پیغام بھیجا تھا کہ پی پی پی اور آئی جے آئی کے کچھ ارکان اگر استعفیٰ دے دیں تو نواز شریف حکومت کو فارغ کیا جاسکتا ہے۔ اس سیاست دان کے مطابق بے نظیر تو استعفے دینے کے لئے تیار تھیں لیکن غلام مصطفے جتوئی آئی جے آئی کے ارکان سے استعفے لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ بھی جنرل بیگ اور نواز شریف کے درمیان غلط فہمیوں کی ایک اہم وجہ تھی۔ جنرل بیگ کی ریٹائرمنٹ 1991ءکے آخر میں ہونا تھی ابھی ان کی ریٹائرمنٹ میں کئی ماہ رہتے تھے کہ وزیراعظم کی استدعا پر صدر غلام اسحاق خان نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو فوج کا سربراہ نامزد کر دیا جس کے بعد جنرل بیگ کو ایک حد تک غیر موثر کر دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ 1992ءمیں کراچی اور سندھ آپریشن پر وزیراعظم نواز شریف اور جنرل آصف نواز کے درمیان بھی تعلقات بگڑ گئے۔