فلموں میں ریاستی تشدد اور دہشت گردی کی عکاسی کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ یہ آزادی اظہار کا ثبوت ہے امریکی ہالی ووڈ ہو یا بھارتی بالی ووڈ ریاستی سازشوں اور حکومتی اداروں کی طرف سے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو آئے روز بصورت تفریح سینما گھروں میں دکھایا جاتا ہے مگر ایسی اکثر فلموں کی کہانی میں ایک خاص بات ہوتی ہے وہ یہ کہ قانون اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والے ریاستی عناصر کو ہمیشہ بے نقاب کرکے انہیں انجام تک پہنچایا جاتا ہے کرپٹ اور ظالم پولیس افسران آخر کار قانون کے شکنجے میں دکھائے جاتے ہیں ‘ قاتل سیاستدان یا وزراءآخر کار قانون کا نشانہ بنتے ہیں‘ ریاست کے اندر اگر چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے اور قاتل کردار دکھائے جاتے ہیں تو ریاست میں سے ہی اچھے کردار کے حامل لوگ اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر امریکی فلم میں سی آئی اے کے لوگ ملکی صدر کے خلاف سازش کرتے ہیں تو ان ہی کے ساتھی ان کے خلاف کامیاب آپریشن کرکے سازش کو ناکام بناتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی فلم میں گجرات کے قتل عام کے واحد عینی شاہد پر قاتلانہ حملوں میں آئی ایس آئی کو ملوث دکھایا جاتا ہے تو اسی فلم میں بھانڈا بھی پھوڑا جاتا ہے کہ زیر حراست عینی شاہد پر قاتلانہ حملوں میں آئی ایس آئی نہیں بلکہ بھارتی حکومت کا اپنا وزیر داخلہ ملوث ہے ۔ پس بات اتنی ہے کہ قانون کے مجرموں کو چاہے وہ کتنے ہی بااثر ہوں کبھی ہیرو بنا کر پیش نہ کرنا میڈیا اور لکھاریوں کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے‘ مگر پھر ”پھولن دیوی“ اور ”نظام ڈاکو“ جیسے کرداروں کا کیا جواب ہوگا؟ اس کا جواب اتنا ہی ہے کہ یہ کردار ریاست یا حکومت کے کردار نہیں اور نہ ہی ایسی فلم کے کردار ہیں جس میں ریاست نے مالی یا”تکنیکی مدد“ کے نام پر کوئی سرمایہ لگایا ہو‘ کوئی ریاست پھولن دیوی یا نظام ڈاکو کی کہانی اپنے تعلیمی نصاب میں بغیر وضاحت کے شامل نہیںکرنا چاہئے گی اور نہ ہی کوئی والدین اپنے بچوں کو ایسا بنانا چاہیں گے خاص کر آج اکیسویں صدی میں پاکستان میں بھی ایک نئی قسم کی نفسیاتی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے یہ وہ نفسیاتی جنگ ہے جس میں دشمن سے زیادہ عوام کے ذہنوں پر نفسیاتی ”وار“ کیا جا رہا ہے آئین اور قانون کی بجائے جنگل کے قانون کی ترغیب دی جا رہی ہے اس کی ایک مثال حال ہی میں ریلیزہونے والی اردو کم اور زیادہ انگریزی فلم ”وار“ ہے فلم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاک فوج جیسے طاقتور ادارے جب کسی فلم سازی کے لئے سرمایہ لگا دیں تو پھر ملکی قوانین اور سرکاری پالیسیاں ان پر لاگو نہیں ہوتیں‘ فلم میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں ‘ اسلحے کے استعمال اور افرادی قوت کے استعمال کے لئے قانون اور پالیسی پر سوالات تو ایک طرف اس کی کہانی اور مناظر بھی بہت سے قانونی اور اخلاقی سوالات کو جنم دیتی ہے کہانی کا ایک کردار پاک فوج کا میجر ہے جو دہشت گردوں کی طرف سے اپنی بیوی اور بچے کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے فوج سے ریٹائرمنٹ لیتا ہے اور پھر تین سال تک مبینہ دہشت گردوں کو اپنی نجی کارروائیوں میں ہلاک کرتا ہے یا تشدد کا نشانہ بناتا ہے ریاستی ادارے اس بات سے باخبر ہوتے ہیں اورچشم پوشی کے عوض اسے دوبارہ نوکری پر آمادہ کرتے ہیں تاکہ دہشت گردی کے ایک اور بڑے منصوبے کو ناکام بنایا جاسکے ‘ آگے چل کر یہی ریٹائرڈ میجر بطور تفتیشی افسر تفتیش کے دوران دہشت گردوں پر تشدد کرتا ہے اور آخر کار اعلٰی حکام کے سامنے ایک مبینہ زیرحراست دہشت گرد کے سر میں گولی مار دیتا ہے اس کا حربہ یقینا کامیاب ہوتا ہے اور اس کا ساتھی دہشت گرد اپنے ”بڑے“ کا نام لے لیتا ہے ‘ ریٹائرڈ میجر کے ساتھی افسران اسے کامیابی سمجھتے ہیں‘ اس سے پہلے لاہور کے پولیس ٹریننگ سینٹر مناواں میں دہشت گردوں کی طرف سے پولیس اہلکاروں کے قتل عام کے خوفناک خونی مناظر دکھا کر اس ایک دہشت گرد کے زیر حراست قتل کا جواز بنانے کی کوشش کی گئی اس ایک منظر سے لاکھوں پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ سینکڑوں لاپتہ افراد اور ملنے والی لاشوں کے معاملات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معمولات سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا‘ ان مناظر کے ذریعے دہشت گردی کے شکار مظلوم خاندانوں کو ڈھال بنا کر عوام کے ذہنوں پر ایک ایسا نفسیاتی وار کیا گیا ہے کہ جس کا زخم ہمارے آئینی اور قانونی ادارے طویل عرصے تک چاٹتے رہیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی قیادت اپنے صحیح یاغلط فیصلے کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے فوج نے چند سیاسی اور صحافتی ڈرون حملوں کے ذریعے اپنی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے سیاسی قیادت اور جمہوری نظام کو ناکام اور بے بس ثابت کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا‘ سیاست دانوں کی نظریاتی مخالفت کو انتشار بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جب کسی مسئلے پر ان کا اتفاق ہو جائے تو پھر انہیں مفاد پرستی اور عوام دشمنی کے تمغے سجائے جاتے ہیں ۔ فلم ”وار“ میں بھی سیاست اور سیاستدانوں کے اخلاقی کھوکھلے پن ‘ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہونے اور ان کی بے اختیاری و بے بسی کا خوفناک پیغام دیا گیا ہے بظاہر کالا باغ ڈیم پر قومی اتفاق پیدا کرنے والے ایک سیاست دان کی ایک سماجی خاتون سے پیمانوں کے ساتھ ملاقاتیں ‘ اس کا رات کو بالکونی میں کھڑا ہو کر خالی صحن میں خیالی عوام ہجوم سے خطاب کرنا اور پھر اپنی بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں با آسانی قتل ہو جانا ہمارے جمہوری نظام کی ”فضولیت“ کا عکاس ہے ایک طرف تو فوج کے مستعد ہیلی کاپٹروں اور ریٹائرڈ میجر نے پولیس کے ہمراہ دہشت گردوں کے ٹھکانے فوری تباہ کر دیئے تو کیا وجہ تھی کہ اس سیاست دان اور اس کی بیوی کے قتل کو نہیں روکا جا سکا‘ ایک بین الاقوامی دہشت گرد سیاست دان کے بیڈ روم میں داخل ہو کر خاموشی سے وار کرتا ہے‘ وہ سیاست دان جو اپنی گاڑی پر قومی پرچم لگا کر گھومتا تھا کیا پولیس اور فوج کے خفیہ ادارے ایسی سیاسی حکومت کی حفاظت کرنے کے پابند نہیں جو آزادانہ پالیسی سازی پر یقین رکھتی ہو‘لگتا ہے طالبان سے مذاکرات کی پالیسی ہی واحد راستہ ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں خدانخواستہ گلی محلوں میں اگر آگ لگی (جیسا کہ حکومتوں کو ڈرایا جاتا ہے) تو پھر ”جنوبی وزیرستان کمیشن“ کی سربراہی جسٹس (ر) جاوید اقبال جیسے لوگ ہی کریں گے اور کسی کا بھی احتساب کرنا ناممکن ہوگا۔ فلم دیکھ کر لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پڑھی لکھی اشرافیہ‘ بیوروکریسی اور فوج ہی لڑ سکتی ہے سیاست دان نہیں‘ یہ اشرافیہ اس جنگ کو ”اپنا“ سمجھ کر لڑتی ہے اور اپنے مقصد کے حصول کےلئے امریکی حکومت کی طرح ملکی قوانین اور انسانی حقوق کو بھی نظر انداز کر سکتی ہے‘ پیغام واضح ہے اور انگریزی میں بھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کےلئے عوامی حکومتوں سے زیادہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کرنا ضروری ہے‘ہمارے ملک میں سیاست کو گالی بنانے کےلئے فوجی حکومتوں نے ماضی میں جو نفسیاتی جنگ شروع کی تھی وہ آج بھی جاری ہے ہماری یتیم وزارت دفاع کو ایک باپ چاہیے‘ ایک وزیر چاہیے تو افواج پاکستان کو حکومتی پالیسیوں پر کار بند رہنے کا پابند بنائے‘ فلم وار میں بہت سارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی طرف سے ایکٹنگ اور فوج کی طرف سے ”تکنیکی مدد“ جیسے معاملات پر حکومت کو فوری غور کرنا چاہئے اور فوج کی طرف سے فلمی دنیا میں سرمایہ کاری پر پالیسی وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے اگر موجودہ منتخب سیاسی حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر کوئی ”جوابی وار“ جیسی فلم ہی بنا ڈالے اور کچھ پیسہ کما لے۔