خواتین ہاکی مرد کوچز کی محتاج

عنبرین فاطمہ۔۔۔۔
تصاویر:اعجاز لاہوری......
پاکستان میں خواتین ہاکی کا آغاز 80ء کی دہائی میں شاندار انداز میں ہوا۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس (ریلوے، آرمی، پی آئی اے) سمیت چاروں صوبوں کی ٹیموں نے اعلیٰ کارکردگی سے اس کھیل کو خاصا فروغ دیا۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا اور یہ کھیل بھی آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونا شروع ہو گیا۔ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے تشکیل دی گئی ٹیموں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھایا جانے لگا۔  یوں ریلوے اور آرمی کی ٹیمیں برائے نام رہ گئیں۔تاہم ابھی تک واپڈا نے اس کھیل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سال 2000 ء میں واپڈا نے خواتین ہاکی ٹیم تشکیل دی اورتب سے اب تک جیسے تیسے کرکے اس کھیل کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ڈومیسٹک ہاکی (خواتین)بالکل نہیں ہے کسی قسم کے بھی ہاکی ٹورنامنٹس کا انعقاد نہیں کیا جاتا ایک دو ٹورنامنٹس کا جو انعقاد کیا جاتا ہے وہ اتنا آرگنائز نہیں ہوتا ۔اگر ہم ہاکی فیڈریشن کی بات کریں تو گزشتہ دو برسوں سے اس نے ویمن ہاکی کو فروغ دینے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔جہاں تک تعلیمی اداروں کی بات ہے تووہاں بھی ویمن ہاکی کے فروغ پر توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی ایسا کوئی دوسرا پلیٹ فارم موجود ہے جو ویمن ہاکی کو پرموٹ کرے۔یہی وجہ ہے کہ ٹیم کی سلیکشن کے وقت پلئیرز ہی نہیں ملتے ماسوائے چند درجن کھلاڑیوں کے۔اور وہ چند درجن وہ کھلاڑی ہیں جو اتنے پائے کے پلئیرز نہیں ہیں باامر مجبوری ان میںسے ہی ٹیم تشکیل دینی پڑتی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری ٹیم بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسی ٹیموں سے بھی شکست کھا جاتی ہے۔خواتین ہاکی کو فروغ دینے کیلئے ہمیں نچلی سطح سے اقدامات کرنے ہوں گے ۔تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اس کی تعلیم دی جائے۔اس کے علاوہ جن اداروں کی مردوں کی ہاکی ٹیمیں ہیں انہیں چاہیے کہ وہ خواتین ہاکی ٹیمیں بھی تشکیل دیں۔جونیئر اور سینئر ٹیموں کو بیرون ملک میں میچز کھلائے جائیں۔المیہ یہ ہے کہ پورے ملک میں خواتین ہاکی کیلئے خواتین کوچز سرے سے ہی نہیںہیں جس کی وجہ سے خواتین پلئیرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بیٹیاں کسی مرد کوچ سے تربیت حاصل کریں۔خواتین کے کالجز کی جو ٹیمیں ہیں وہاں بھی مرد کوچز ٹریننگ کروا رہے ہیں۔اگر ویمن ہاکی کو فروغ دینے کیلئے حکومت اور فیڈریشن سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ خواتین کوچز کو تیار کرنے کیلئے بھرپور کوشش کریں تاکہ خواتین پلئیرز آرام سے ٹریننگ حاصل کر سکیں۔حال ہی میںہماری خواتین ہاکی ٹیم سنگا پور گئی وہاں بھی تسلی بخش کارکردگی نہ دکھا سکی۔دیگر کھیلوں کی طرح یہاں بھی مردوںکی اجارہ داری ہے۔ہاکی فیڈریشن کے ویمن ونگ  کے پاس فنڈز نہیں ہیں یہ ونگ سلیکشن کے معاملے میں آزادانہ کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا۔مرد کوچ اور سلیکٹر ہی تمام فیصلے کرتے ہیںیوں عملی طور پر خواتین ونگ کی باگ دوڑ اس ونگ کے پاس نہیں ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ویمن ونگ کے عہدیداروں کی سلیکشن بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے  اس وقت ہاکی فیڈریشن کی چئیر پرسن ایم کیو ایم کی نمائندہ اور سابق رکن اسمبلی خوش بخت شجاعت ہیں وہ گزشتہ چار برسوں سے چار مرتبہ لاہور ہیڈ کوارٹر آئیں میٹنگ کا حصہ بنیں اور واپس چلی گئیں۔خواتین ونگ کی سیکرٹری تنزیلاچیمہ معروف سیاستدان چوہدھری شجاعت کی بھانجی ہیں جو کہ سابق رکن قومی اسمبلی بھی ہیں ان کی ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ گزشتہ دو برسوں سے سٹیڈیم ہی نہیں آئی ہیں صرف دو غیرملکی دوروں پر ہاکی ٹیم کے ساتھ گئیں۔یوں ہمارے اس کھیل میں بھی سیاست کا کافی عمل دخل ہے جب پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خواتین ونگ کے عہدیداروں کی تقرری ہی سیاسی بنیادوں پر ہوگی وہاں بہتری کیسے ممکن ہو گی کیونکہ ہر ایک نے اپنے حساب سے چلنا ہے اوراس کھینچا تانی میں  کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثرہوتی رہے گی۔دوسرے ملکوں میں سپورٹس کو بہت اہمیت حاصل ہے وہاں والدین اپنے بچوں کو پلئیر بنائیں نہ بنائیں لیکن بچپن سے ہی ان کو صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینے کی تربیت اس لئے دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں سپورٹس ایک صحت مند سرگرمی ہے جو انسان کو توانا رکھتی ہے۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہونے کے باوجود اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور خواتین ہاکی کو پرموٹ کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔بھارت کی خواتین ہاکی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پراس کھیل کو فروغ دینے کیلئے نچلی سطح سے اقدامات کئے جاتے ہیں۔کھلاڑیوںکو بہترین سہولیات دینے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے خواتین کوچز کو اعلیٰ معیار کی سہولیات دی جاتی ہیں۔ہاکی کوپرموٹ کرنے کیلئے ہمارے ہاںچاروں صوبوں میں اکیڈمیوںکا قیام بھی بے حد ضروری ہے۔اس وقت خواتین ہاکی ٹیم قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن ابھی بھی ان کے پاس سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پلئیرز اس طرح سے نہیں کھیل پاتے جس طرح سے کھیلا جانا چاہیے۔’’آمنہ میر‘‘ گزشتہ ایک برس سے خواتین ہاکی ٹیم کی کپتانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں جارحانہ انداز میں سنٹر ہاف کی پوزیشن میں کھیلتی ہیں۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کالج سے کیا پنجاب سے کھیلا اور پاکستان کی نمائندگی کی۔گزشتہ دنوں ہم نے ان سے خواتین ہاکی کے حوالے سے بات چیت کی ۔آمنہ میر نے کہا کہ ہم پلئیرز کے پاس مناسب سہولیات نہیں ہیں اس کے باوجود ہم نے کبھی ہمت نہیںہاری اور اپنی طرف سے بہترین پرفارمنس دینے کی کوشش کی ہے۔ہمارے کھلاڑی ہر میچ کو لیکر خاصے پر عزم ہوتے ہیں۔آمنہ میر نے کہا کہ جس طرح سے دیگر سپورٹس کو فروغ دینے کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اس طرح سے خواتین ہاکی کو پرموٹ کرنے کے لئے اقدامات کیوں نہیں کئے جاتے۔پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کو سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جو کہ بہت ہی اہم پیش رفت ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری خواتین کھلاڑی اچھا پرفارم کر رہی ہیںباقی ہار جیت تو چلتی رہتی ہے۔اسی طرح اگر خواتین ہاکی کوپرموٹ کرنے کے لئے نچلی سطح سے اقدامات کئے جائیںکوئی وجہ نہیں ہے کہ خواتین ہاکی ٹیم دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن نہ کرے۔مجھے کپتانی کرنے کا موقع ملا ہے اور میری کوشش ہے کہ میں جب تک کپتان ہوں تب تک ٹیم کو بہتر انداز میں ساتھ لیکر چلوں۔  

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...