ہماری منزل قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان تھا فوجی آمر راستے میں حائل رہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی

لاہور (خبر نگار)  مدیر اعلیٰ نوائے وقت گروپ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا ہے ہماری صحافت آج کے دور میں بھی نظریاتی ہے۔ ندائے ملت، پھول، فیملی، دی نیشن نظریاتی جرائد ہیں۔ وقت ٹی وی کو نظریاتی بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ حق کہنے اور لکھنے کی ہمت اور توفیق دی ہے۔ پاکستان پر آزادی کے بعد نصف حصہ حکمران رہنے والے چاروں فوجی آمروں نے پاکستان کی اصلی منزل کو ضائع کیا۔ جتنے سال ان حکمرانوں کی آمریت رہی اتنے سال ضائع گئے۔ ہماری منزل قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان تھا یہ اس کے راستے میں حائل رہے۔ ان فوجی آمروں نے تو یہاں تک کہلوایا جمہوریت کفر ہے حالانکہ جمہوریت عین اسلام ہے۔ جمہوریت میں لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے اور اپنے نمائندوں کا چنائو کرتے ہیں۔ جب تک پاکستانی نہیں بنیں گے پاکستان نہیں بنا سکیں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان ٹیلی ویژن کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ یہ انٹرویو سرور منیر رائو نے کیا۔ انہوں نے کہا اپنے آپ کو اس وقت کامیاب سمجھوں گا جب پاکستان قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان بن جائے گا اور جب پاکستان کا دوسرا بازو، آدھا حصہ جو آج بنگلہ دیش ہے جسے مجیب الرحمن نے بنگلہ بندھو بننے کیلئے الگ کیا وہ واپس مل جائے گا اور پاکستان کا دوسرا بازو بن جائے گا۔ تب اپنے آپ کو کامیاب سمجھوں گا۔ امن کی آشا کے گیت گانے والوں کو کیسے ٹھیک سمجھ سکتا ہوں۔ بھارت ہماری شہہ رگ کشمیر پر قابض ہے۔ قائداعظمؒ نے کشمیر کو ہماری شہہ رگ قرار دیا تھا۔ ہم اپنی شہہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم نے ہندوستان پر 1000 سال حکومت کی ہے اور وہ حکومت صرف تلوار کے زور پر قوت بازو پر کی تھی۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے سوال پر کہا اس میں شک نہیں ہمسائے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہمسایہ ازلی دشمن ہو، اس نے ہمارا وجود ہی قبول نہ کیا ہو جو سمجھتا ہے پاکستان کے قیام سے گئو ماتا کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں اور ایک حصہ پاکستان ہے جو وہ چاہتا ہے  دونوں حصے اکٹھے  ہوں۔ ایسا ہمسایہ  جو ہمارا ازلی دشمن ہے جس   نے ہمارے وجود کو  ہی قبول نہیں کیا۔  انہوں  نے کہا ایمان  سے کام لیں  تو بھارت ہمارے  آگے کوئی  چیز نہیں۔ انہوں  نے   تو جو آبدوز بنائی وہ ڈوب گئی۔   خدا بھارت  جیسا ہمسایہ  کسی کو  نہ دے۔ بھارت جیسا ہمسایہ  ہمیں  ہمیشہ  کیلئے  ملا ہے ہمیں ایسے ہمسائے   کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیشہ  تیار رہنا چاہئے۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے دشمن کے مقابلے کیلئے اپنے گھوڑے  تیار رکھو۔  آج کل کے گھوڑے   ایٹم  بم اور میزائل ہیں۔ قائداعظمؒ نے پاکستان بنایا تھا۔ ان کے نام سے پورے پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں تھا اب ایوان قائد نہر کنارے جوہر ٹائون میں تعمیر کر رہے ہیں اس پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں یہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے اللہ نے زندگی دی تو میر ی زندگی میں اگلے برس اس کا افتتاح ہو گا۔ انہوں نے کہا اس سے پہلے ایوان اقبال بھی بنوایا تھا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا وہ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوئے، ہمیشہ حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی  تلاش میں رہے۔ انہوں نے کہا اس ملک پر حکومت کرنیوالے چاروں فوجی آمروں جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا مقابلہ کیا۔ کسی سے جھک کر نہیں ملے۔ انہوں نے بھی عزت دی۔ ساتھ بٹھایا پرویز مشرف نے ایک ملاقات میں ساتھ بٹھایا اور کہا جو کچھ آپ لکھتے ہیں ان حضرات سے پوچھوں کہ آپ (مجید نظامی) لکھنا چھوڑ دیں تو کیا آپ حضرات لکھیں گے تو کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ کہے ہاں ہم لکھیں گے۔ صدر ایوب سے کراچی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا صحافت بھی ایک کاروبار   ہے جس پر ان سے کہا جان کی امان ہے تو کچھ کہوں  انہوں نے کہا  ہاں  کہیں۔ انہیں کہا  آپ نے کہا ہے  صحافت کاروبار ہے تو آپ نے اپنے بیٹے کو جو فوج میں کیپٹن تھا فوج سے نکال کر گندھارا انڈسٹری دی ہے اسے اخبار بھی دے دیں تاکہ پتہ چل جائے  یہ کتنا بڑا کاروبار ہے جس پر جنرل ایوب نے کہا  آپ بیٹھ جائیں میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا جس پر انہیں کہا  بتائیں  آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کاروبار ہے یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کاروبار نہیں  ہے جس پر انہوں نے مشکل سے جان چھڑائی انہوں نے کہا  نوائے وقت کراچی کے سٹاف نے جنرل ضیاء الحق سے انٹرویو کا وقت مانگا تو انہوں نے شرط لگائی  مجید نظامی ساتھ آئیں میں بھی ساتھ چلا گیا انٹرویو کے بعد وہ مجھے کہنے لگے  آپ نے سوال نہیں کیا میں نے انہیں کہا  یہ شرط نہیں تھی کہ میں سوال بھی کروں شرط یہ تھی  میں ساتھ آئوں۔ مجید نظامی نے  کہا  ضیاء الحق سے ’’سٹک اور کیرٹ‘‘  والا تعلق رہا۔ لہذا ان سے سوال کیا  بتائیں ہماری جان کب چھوڑیں گے جس پر انہوں نے کہا  میں سوال کرنے کو نہ ہی کہتا تو اچھا تھا۔ انہوں نے کہا  ذوالفقار علی بھٹو اور وہ ہم عمر تھے بھٹو کی بھی تاریخ پیدائش غالباً 1928ء ہی تھی۔ ان سے بہت ملنا جلنا تھا وہ لاہور آتے تو فلیٹیز  میں قیام کرتے۔ نوائے وقت کا دفتر شاہ دین بلڈنگ میں تھا اکثر کافی ہاؤس، پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتے مگر بھٹو نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا کہ ان کے خلاف لکھتا ہوں ایک دن مصطفٰے صادق نے کہا  اپنی ٹور بنانا جانتا ہوں میرے ساتھ بھٹو کے پاس  چلو  وہاں چلے گئے گپ شپ ہوتی رہی چائے پی، چائے کے ساتھ  جو تھا وہ کھا لیا بھٹو نے اچانک مصطفی صادق سے کہا  مصطفی اشتہاروں کی بات تو ہوئی ہی نہیں جس پر کہا  یہ مجھے اشتہاروں کیلئے یہاں لائے تھے۔ اشتہار  بیشک بند رکھیں  میں انہیں کھولنے کی بات نہیں کروں گا۔ جب تک چاہیں اشتہار بند رکھیں، کھولنے کا نہیں کہوں گا۔ بھٹو کہنے لگے آپ سے نمٹنا مشکل ہے۔ مجید نظامی نے کہا کہ میاں محمد شریف اپنے دونوں صاحبزادوں نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ آئے اور پاکستان کی صدارت آفر کی۔ انہیں کہا  میری مدیر کی کرسی زیادہ بڑی ہے۔ صدارت کو کمتر چیز نہیں سمجھتا مگر میرے لئے مدیر کی کرسی زیادہ اہم ہے، یہاں ہی رہوں گا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے گورنر پنجاب بنانے کی بات کی تھی۔ انہوں نے زین نورانی کو بھیجا تھا کہ گورنر پنجاب بنانا چاہتا ہوں۔ سقوط ڈھاکہ کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا 16 دسمبر 1971ء کی شب جب سقوط ڈھاکہ کی خبر آئی تو م ش (میاںمحمد شفیع) میرے گھر تھے۔ خبر سن کر وہ زمین پر ٹکریں مارنے لگے۔ انہیں کہا  اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہم نے جو غلطیاں کی ہیں، انہیںدہرانا نہیں چاہئے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کی بجائے  ایک قوم بنانا چاہیے۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی نہ بنیں۔ جب تک پاکستانی نہیں بنیں گے، پاکستان نہیں بنا سکیں گے۔  ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا  مجیب الرحمن سے کہا  تم اکثریت میں ہو یہاں آئو حکومت کرو۔ ڈھاکہ کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دے دو۔ دارالحکومت وہاں لے جائو مگر دو پاکستان نہ بنائو۔ لیکن آپ تو الگ ملک بنانا چاہ رہے ہو۔ بنگلہ دیش بنانا چاہ رہے ہو۔ آج مجیب الرحمن کی بیٹی جماعت اسلامی کے90,90  سال کے بزرگ رہنمائوں کو 90,90 سال کی سزا سنا رہی ہے، وہ سو فیصد اپنے باپ پر گئی ہے مگر وہاں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اس کا مقابلہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔  ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ خوش قسمت آدمی ہوں، روضہ رسولؐ اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کا موقع ملا ہے۔ روضہ رسولؐ کے اندر گیا وہاں سجدہ کیا اور نماز پڑھی۔ انہوں نے کہا  بیحد جذباتی ہوں، مسلمانوں کے تحفظ کے لئے جان دینے کو تیار ہوں۔ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے لئے جان دینے کو تیار ہوں۔ مگر وہاں جاکر جذبات کیا تھے، ان کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا  خانہ کعبہ کے اندر اس کی تعمیر کے وقت کی کچھ پرانی چیزیں موجود ہیں وہاں موجود ہر چیز جو خانہ کعبہ کے اندر ہے مقدس ہے۔ روضہ رسول کے اندر روشنی نہیں ہے، وہاں قدرتی روشنی جتنی پہنچ سکے بس وہی ہوتی ہے۔ وہاں غلاف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر وہ وقت دیں تو سجدہ کر لیں۔ یہ موقع مجھے مل گیا تھا۔ انہوں نے کہا  قرآن پاک کے علاوہ اقبالؒ پڑھتا ہوں۔ کلام اقبال فارسی میں ہے۔ میں نے فارسی اضافی مضمون کے طور پر پڑھی تھی۔ پہلے افسانوں کی کتابیں پڑھتا تھا اب سمجھتا ہوں  یہ وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔ انگریزی کی سیاست کے بارے  میں کتابیں بھی پڑھتا ہوں اگر وقت مل سکے۔ اس کے علاوہ ’’وقت نیوز‘‘ کو دیکھتا رہتا ہوں۔ انہوں نے کہا  وقت  نیوز ہمیشہ فیملی چینل رہے گا۔ یہ ہمیشہ ’’نونان سینس‘‘ چینل رہے گا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنے بچپن، تعلیم اور تحریک پاکستان میں اپنے کردار کے حوالے سے بتایا  وہ سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے جو شیخوپورہ کا 15-10 ہزار آبادی پر مشتمل ترقی یافتہ قصبہ تھا۔ وہاں اکثریت ہندوئوں کی تھی اور کاروبار بھی ہندوئوں کے پاس تھا۔ پرائمری تک  ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی، پھر  حمید نظامی کے پاس لاہور آ گیا۔ ان کی خواہش تھی  ایف ایس سی کروں مگر سائنس نہیں پڑھی تھی لہٰذا آرٹس میں داخلہ لیا۔ اسلامیہ کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا اور گورنمنٹ کالج سے بی اے اکنامکس اور پالیٹکس کے ساتھ کیا۔ ایم اے کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پالیٹکس کے مضمون میں کیا۔ امتحان کے فوراً بعد نوائے وقت کا نمائندہ بن کر لندن چلا گیا۔ وہاں لڑکیاں خود دوست تلاش کرتی ہیں لہٰذا نظامی صاحب کو لکھا  اگر یہ نہیں چاہتے کہ میم لیکر آئوں تو میری شادی کا بندوبست کر دیں، اتنے پیسے نہیں کہ خود پاکستان آ جائوں لہٰذا میری شادی ہو گئی اور ریحانہ میری اہلیہ بن کر میرے پاس لندن پہنچ گئیں۔ وہاں شادی کی دعوت بھی دی۔ انہوں نے کہا  لندن میں ’’گریز ان‘‘ میں داخلہ لیا مگر بیرسٹر نہیں بننا چاہتا تھا۔ حمید نظامی اس وقت ٹاپ کے صحافی تھے۔ ہر حکومت کی پالیسی یا اپنے اصولوں کی وجہ سے وہ مخالفت کرتے تھے۔ ایوب کا مارشل لاء آیا تو وہ دبائو برداشت نہ کر سکے، ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ آغا شورش مرحوم نے فون کیا  فوراً واپس پہنچو۔ واپس پہنچ کر گھر پہنچا تو نظامی صاحب لیٹے ہوئے تھے سلام کیا تو کہا آ گئے ہو۔ میں نے کہا  آ گیا ہوں۔ انہوں نے   اچھا کہا اور آنکھیں بند کر لیں اور پھر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک آدھ دن بعد جب دفتر گیا تو حالات کا پتہ چلا جو ناگفتہ بہ تھے اخبار لیتھو پر چھپ رہا تھا۔ سرکاری اشتہار بند تھے اور لیتھو پر تصویر والا اشتہار چھاپ نہیں سکتے تھے نیوز پرنٹ کا کوٹہ بھی نہیں ملتا تھا لہذا بلیک میں خریدتے تھے اس وقت میری عمر 34 برس تھی انہوں نے کہا  جب وہ سانگلہ ہل میں تھے تو تحریک پاکستان پوری قوت سے شروع نہیں ہوئی تھی البتہ پنجاب میں مسلمان   بیدار ہو چکے تھے اور نعرے لگ رہے تھے  لیکر رہیں گے پاکستان، بن کر رہے گا پاکستان، ان جلسوں جلوسوں میں حصہ لیتا رہا۔  جب لاہور پہنچا تو یہاں تحریک پاکستان کا مرکز تھا۔ 1940ء میں جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو اسلامیہ کالج کا طالب علم تھا۔ انہوں نے کہا  قیام پاکستان میں اسلامیہ کالج لاہور، اسلامیہ کالج پشاور اور علیگڑھ یونیورسٹی کا بہت اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا  23 مارچ کو  قرار داد پاکستان کے جلسہ میں موجود نہیں تھا البتہ قائداعظم کو اسلامیہ کالج میں ایک سے زائد بار دیکھا۔ انکے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ ممدوٹ ولا جاکر ان سے ملے مگر ان سے بات نہیں کی قائداعظمؒ سے بات کرنا بھی جرات کی بات تھی قائدؒ کی زیارت تو کی بات نہیں کی۔ ان کی گفتگو سے یہی تاثر ملا کہ  پاکستان بننے والا ہے گئو ماتا تقسیم ہونیوالی ہے اس ملک کی تقسیم ہوکر پاکستان بننے والا ہے جس پر مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی۔  میرے جذبات میرے دوستوں ساتھیوں کی طرح جوش و جذبے سے بھرے تھے۔ انہوں نے کہا  ایم اے او کالج کے سامنے ایس ڈی کالج تھا ہم وہاں مظاہرہ کر رہے تھے  اچانک اندر سے اینٹیں آنا شروع ہو گئیں ہم نے بھی اینٹیں ماریں میرے ساتھ میرے کلاس فیلو عبدالمالک تھے ایک اینٹ ان کے سر پر لگی وہ شہید ہو گئے انہیں سنبھالا تو میرے کپڑے ان کے خون سے بھر گئے۔   وہ اینٹ  مجھے لگتی تو میں مجید شہید ہو جاتا اور آج یہاں نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا  انہیں لیاقت علی خان نے  مجاہد پاکستان کا سرٹیفکیٹ  اور تلوار 1946ء کے انتخابات میں کام کرنے پر دی تھی لہذا 46ء کا مجاہد ہوں۔ انہوں نے کہا  پاکستان بنانے میں کسی حد تک، خواہ معمولی حد تک حصہ لیا اور پھر بچانے کیلئے بھی حصہ لیا۔ انہوں نے کہا  میرے آئیڈیل  کالم نگار حمید نظامی تھے۔ چراغ حسن حسرت بھی اچھا کالم لکھتے  تھے اداریہ نویس بہت سے لوگ اچھے ہیں  کسی ایک کا نام نہیں لینا چاہتا۔ سرراہے کالم کے بارے   میں انہوں نے کہا  پہلے حمید نظامی خود لکھتے انہوں نے اس پر اپنا نام نہیں دیا پھر میں نے اس روایت پر عمل کیا۔ 50 برس میں سرراہے پر کسی کا نام نہیں لکھا وقار انبالوی اور دیگر ادیب شاعر سرراہے لکھتے رہے۔ میں  نے سرراہے اس وقت لکھنا شروع کیا جب گورنمنٹ کالج میں   پڑھتا تھا   4 سال سرراہے لکھا۔ پہلے اوول گرائونڈ (گورنمنٹ کالج) میں بیٹھ کر لکھتا رہا پھر پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو وہاں سرسبز قطعے میں بیٹھ کر لکھتا رہا اس زمانے کا یہ پاپولر کالم تھا مگر کسی کو بھی پتہ نہیں چلا کون لکھ رہا ہے ۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے پی ٹی وی کے بارے میں کہا  اسے تب سے دیکھ رہا ہوں جب یہ اکیلا ہوتا تھا پی ٹی وی اب ازسر نو پٹڑی  پر چڑھ گیا ہے اللہ اسے چڑھائے رکھے۔ انہوں نے نوجوان نسل کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کو اقبالؒ اور قائدؒ کا پاکستان بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔

ای پیپر دی نیشن