اسلام آباد (قدسیہ اخلاق/ دی نیشن رپورٹ) وزیراعظم محمد نواز شریف کی بدھ کو امریکی صدر بارک اوباما سے پہلی ملاقات ہو گی۔ یہ ملاقات اس بات کا تعین کرے گی کہ آئندہ 5 سال میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اور مسلم لیگ ن کی حکومت بڑے اور اہم مسائل جن میں میگا ڈیمز، مارکیٹ رسائی، افغان امن عمل، علاقائی سلامتی، نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور ڈرون حملے وغیرہ شامل ہیں ان سے نمٹنے کی کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ نواز شریف حلقہ احباب اور سٹریٹجک اقدامات کے حوالے سے یہ بتائینگے کہ انکی ٹیم اس بارے میں کیا کہتی ہے۔ اس میں احباب پاکستان کے حلقہ کا قیام، افغانستان، بھارت، ایران سے تعلقات میں بہتری اور چین سے تعلقات کی مزید مضبوطی کے امور بھی شامل ہیں، ان سب امور کا احاطہ ہو گا۔ اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں ہی سربراہ کانفرنس کے بارے میں پرامید ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر اوباما اپنی ٹیموں کی قیادت کرینگے جس میں تعاون کے فروغ خصوصاً انسداد دہشت گردی، دفاع، تجارت، توانائی اور تعلیمی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال ہو گا۔ 14 سال قبل نواز شریف نے کرگل کے معاملے پر اس وقت کے امریکی صدر سے بات کی تھی۔ اس کے بعد فوجی بغاوت کے بعد انہیں جیل بھیجا گیا، ہائی جیکنگ کیس میں سزا ہوئی اور جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔ اب وہ تیسری بار پھر وزیراعظم ہیں۔ 2012ء میں سلالہ چوکی پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے اور اب نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد ایک اور منتخب امریکی صدر سے ملاقات کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف صدر اوباما کو یکطرفہ ڈرون حملوں پر پاکستانی موقف سے آگاہ کرینگے اور انسداد دہشت گردی کیلئے امریکی تکنیکی حمایت چاہیں گے۔ وہ متنازعہ ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کرینگے۔ اس حوالے سے کچھ پیشرفت کا امکان ہے۔ امکان ہے کہ امریکہ اس بات پر اصرار کرے گا کہ اگر اہداف پیشگی طور پر شیئر کئے جائیں تو ڈرون حملے پاکستان کیلئے مفید ہو سکتے ہیں۔ حکام نجی طور پر یہ کہتے ہیں کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی تلاش تک ڈرون حملے جاری رہ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے فہرست پاکستان کو دی گئی ہے۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات، سلامتی کیلئے درکار آلات بھی اس ملاقات میں زیربحث ہونگے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی آپریشن، پاکستان امریکہ سٹریٹجک مذاکرات پر بھی بات ہو گی۔ قومی سلامتی کے بارے میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے بارے میں امریکہ کو بتایا جائے گا۔ افغانستان سے فوجی انخلا کے بارے میں واضح موقف بتایا جائیگا کہ پاکستان کا کوئی گروپ فیورٹ نہیں اور پاکستان اس میں سہولت فراہم کرے گا۔ 2014ء سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال کے بارے میں پاکستان بھارت کے حوالے سے سکیورٹی خدشات سے آگاہ کریگا۔ وزیراعظم کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اقتصادی بحالی اور مارکیٹ تک رسائی کے حوالے سے خصوصی طور پر بات کرینگے۔ اس بارے میں پاکستان کی توانائی پالیسی سے آگاہ کیا جائیگا۔ پاکستان اربوں ڈالر کے دیامر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز کی فراہمی چاہتا ہے۔ وزیراعظم کے قریبی مشیر نے بتایا کہ امریکی حمایت کے باعث ورلڈ بنک اس حوالے سے متحرک کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول پر بات ہو گی۔ پاکستان کو درپیش توانائی بحران کے حوالے سے نواز شریف پاکستان ایران گیس پائپ لائن کی اہمیت اور پاکستان کی ضروریات سے آگاہ کرینگے۔ امریکہ کو بتایا جائیگا کہ اگر پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل نہیں کرتا تو اسے 3 ملین ڈالر روزانہ کا نقصان ہو گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات کے باعث شائد امریکی مخالفت کم ہو جائے۔ ایک نان پیپر اگست میں وزیر خارجہ جان کیری کو دیا گیا تھا جس میں پوزیشن پہلے ہی واضح کی جا چکی ہے۔