افغان صدر اور چیف ایگزیکٹو کی پاکستان سے قریبی تعاون کی خواہش اور چینی سفیر کا پاکستان چین افغانستان تعلقات پر زور
افغانستان کے نومنتخب صدر اور چیف ایگزیکٹو نے دورہ پاکستان کی دعوت قبول کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون پر مبنی تعلقات کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز نے وزیراعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے گذشتہ روز کابل کا ایک روزہ دورہ کیا۔ دفترخارجہ کے مطابق انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے افغانستان کے نومنتخب صدر اشرف غنی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ انہوں نے اس دعوت کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد پاکستان آئینگے۔ افغان صدر نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو شاندار باہمی تعاون میں تبدیل کرنے کا ایک تاریخی موقع میسر آیا ہے۔ وہ پاک افغان تعلقات کے بارے میں پانچ سالہ منصوبہ کے ویژن سے وزیراعظم نواز شریف کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے افغانستان کے نومنتخب چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی انہیں اس انتخاب پر مبارکباد دی اور انہیں وزیراعظم کی طرف سے دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ عبداللہ عبداللہ نے اس دعوت پر تشکر کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا دونوں ملک باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے مواقع سے استفادہ کریں۔
قیام پاکستان کے بعد پاک افغان تعلقات عموماً سرد مہری کا شکار رہے۔ اسکی بڑی وجہ ظاہرشاہ سے لے کر حامد کرزئی کے اقتدار کے خاتمہ تک حکمرانوں کا زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا ہے۔ ان حکمرانوں نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے اچھے مراسم قائم کرنے پر توجہ دی۔ کوئی بھی ملک اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں آزاد ہے‘ افغانستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ بھارت سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے لیکن معاملات تب بگڑتے ہیں جب ایک پڑوسی ملک کی قیمت پر کسی سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جائے۔ افغان حکمرانوں کی طرف سے ایسا ہی ہوتا رہا۔ بھارت پاکستان کا ازلی و ابدی دشمن ہے اس کیلئے پاکستان ناقابل برداشت ہے۔ وہ پاکستان کو نقصان سے دوچار کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو پاکستان کیخلاف سازش کیلئے استعمال کیا۔ افغان حکمران ذاتی مفادات کی خاطر بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سرگرم رہے۔ حامد کرزئی طویل عرصہ افغان مہاجر کے طور پر پاکستان کے مہمان رہے‘ اقتدار میں آتے ہی وہ بھی بھارت پرریشہ خطمی نظر آئے۔ انکے دس سالہ دور میں پاک افغان تعلقات کشیدگی سے عبارت رہے حالانکہ دونوں ممالک نائن الیون کے بعد امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کیخلاف جنگ کا حصہ تھے۔ افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ سرد پڑی تو امریکہ اپنے وعدے کے مطابق رواں سال کے آخر تک افغانستان سے انخلاءکر رہا ہے جبکہ اس جنگ کے شعلے پاکستان میں بھڑک رہے ہیں۔ اسکی ذمہ داری حامد کرزئی پر عائد ہوتی ہے جو بھارت کے ایماءپر پاکستان کیخلاف دہشت گردوں کی پرورش کرتے رہے۔ مولوی فضل اللہ اور ساتھیوں کو کنٹر میں پناہ کرزئی کی پاکستان دشمن ذہنیت کا شاخسانہ ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا اور کوشش بھی کی گئی‘ ہمیشہ یکطرفہ خیرسگالی کے اقدامات بھی کئے گئے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین نفرتیں اور دوریاں فطرت کے بھی برعکس ہیں۔ دونوں برادر اسلامی ملک ہیں‘ دونوں کے درمیان 25 سو کلیومیٹر کھلی سرحد ہے‘ اسکے آرپار خون کے رشتے ہیں۔ افغان حکمران اگر اپنے مفادات کے اسیر ہو کر پاکستان کے دشمن بھارت کے آگے اپنے ضمیر اور ملی غیرت گروی نہ رکھتے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثالی تعلقات ہوتے جن کا بلاشبہ افغانستان کو زیادہ فائدہ ہوتا۔
صدر‘ وزیراعظم یا انکے نمائندوں کے غیرملکی دوروں کے دوران عموماً میزبان ملک کی طرف سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے دورے پر بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن افغان حکمرانوں کے اندر سے پاکستان سے کدورت دور نہ ہوسکی۔ سرتاج عزیز کے دورے پر افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرف سے جن جذبات کا اظہار کیا گیا‘ وہ بادی النظر میں روایتی نہیں ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے جس طرح کا رویہ سامنے آیا‘ اس سے لگتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ پالیسی کے طور پر اچھے تعلقات کا خواہشمند ہے۔ افغان نیشنل سکیورٹی کے سربراہ نے پاکستان کے امور خارجہ کے مشیر کو پاکستان کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کرنے کا پیغام دیا۔
ایک پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان افغانستان کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہی زمینی حقائق ہیں جن کا نئی افغان قیادت نے ادراک کرلیا ہے‘ افغان صدر اشرف غنی جلد پاکستان کے دورے پر آکر پاک افغان تعلقات کو نئی جہت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) معاہدے سے کچھ مشکلات پیدا ہوئیں‘ ان کو پاکستان دور کرنے کیلئے تیار ہے جس سے افغان تاجروں کی مشکلات میں کمی ہوگی جو پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس پہلے ہی مستعدی سے کام کر رہا ہے جو باقاعدہ طور پر دو ممالک کے مابین تعلقات میں فروغ اور قربت کے بعد مزید فعال ہو جائیگا۔
خطے میں متعدد ممالک کے اتحاد کی راہ میں کل تک کے افغان حکمران سدراہ بنے ہوئے تھے جس سے علاقائی ترقی و خوشحالی کی راہیں مسدور رہیں۔ چین پاکستان اور افغانستان کو ایک تجارتی اور معاشی اتحاد کی لڑی میں پرونا چاہتا تھا‘ یہی ہر پاکستانی حکومت اور افغان عوام کی خواہش تھی۔ اب افغانستان میں نئی سیاسی قیادت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آتا ہے۔ چینی سفیر سن وئی تونگ نے اسلام آباد میں پاکستان چائنہ انسٹیٹوٹ اور جرمن غیرسرکاری ادارے (کے اے ایس) کے زیراہتمام دو روزہ سہ فریقی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان، چین اور افغانستان خطے کے اہم ترین ممالک ہیں، تینوں کے مابین قریبی تعلقات کو پروان چڑھانے میں مل جل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ جہاں ایک طرف پاکستان، چین دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہیں افغانستان کی ترقی و خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنیوالے ملک کا اعزاز رکھتا ہے۔ افغان سفیر جاناں موسیٰ زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا افغانستان 2001ءکے افغانستان سے یکسر تبدیل شدہ اور ترقی یافتہ ہے۔
ایک طویل عرصہ بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے محسوس ہو رہے ہیں۔ یقیناً پاک افغان دوستی اور تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو امریکہ کے پرامن انخلاءاور افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف سرگرم عمل دہشت گردوں کی سرکوبی کے کیلئے ضروری ہوچکے تھے۔ افغانستان تجارتی اور دفاعی شعبوں سے پاکستان کا تعاون حاصل کرتا ہے تو امریکہ کو وہاں دس ہزار افواج رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
نیٹو فورسز کے انخلاءکے بعد باہمی تعاون سے ہی علاقائی امن و خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے
Oct 21, 2014