جو لوگ کہتے ہیں انقلاب مارچ اور دھرنوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا انہیں اپنی آنکھیں کھول کر ملک کے طول و عرض میں ہونے والے بڑے بڑے عوامی اجتماعات کو غور سے دیکھنا چاہئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لاہور سے اسلام آباد جانے والے لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد کی شاہراہ دستور اور ڈی چوک پر ہونے والے حکومت مخالف انقلابی خطابات نے آسمان سیاست پر گھنگھور گھٹا بادلوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ بڑے بڑے عوامی اجتماعات انہی گھٹاﺅں سے برسنے والی موسلا دھار بارش ہے۔ کراچی سے لے کر ملتان، سرگودھا، میانوالی، فیصل آباد، گجرات، ایبٹ آباد اور دیگر شہروں میں سیاسی جلسوں کی لائن لگ گئی ہے۔ اگر انتخابات قریب ہوتے تو کہا جاسکتا تھا کہ یہ بڑے بڑے جلسے موسمی ہیں۔ یعنی ان کی ضرورت اور منطق واضح تھی۔ مگر اب نہ تو قریب قریب حکومت مستعفی ہورہی ہے نہ ضمنی الیکشن کا امکان نظر آرہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جلسوں کی یہ بھرمار اور عوام کا امڈتا ہوا طوفان کس اضطراب کا غماز ہے اور سب جماعتیں کیوں عوامی طاقت کے بھرپور مظاہروں میں مصروف ہیں؟ اسی تسلسل میں گذشتہ تین روز میں تین بڑے اجتماعات ہوئے جن کے اثرات اور مضمرات پر ہم بالترتیب روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
17 اکتوبر کو سرگودھا میں ہونے والا اجتماع یقینا تحریک انصا ف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مظہر تھا جس میں کراچی،لاہور، میانوالی اور ملتان کی طرح بھرپور جوش و خروش دکھائی دیا۔ انہوں نے اس اجتماع میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرکے ملتان کی بدنظمی کا داغ دھونے کی کامیاب کوشش کی۔ سونامی کا اگلا پڑاﺅ گجرات میں ہے اور پھر لاڑکانہ کی خطرناک فضاﺅں میں خان کی مقبولیت کا بہت بڑا امتحان ہونے جارہا ہے۔
18 اکتوبر کو مزار قائد پر جناح باغ کی وسعتوں کو پی پی کے جیالوںنے بھرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پاکستان کی قدیم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کا یہ شو آف پاور کئی اعتبار سے قابل ذکر تھا۔ تحریک انصاف اور خصوصاً عوامی تحریک نے لاہور کے بعد اسلام آباد اور اسلام آباد سے پورے پاکستان میں جس طرح حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت مخالف فضا قائم کردی ہے اور عوام کے حقیقی مسائل کو اپنے اپنے منشور اور انتخابی دستور کا حصہ بناکر لوگوں کو متوجہ کرنا شروع کردیا ہے،یہ صورت حال نہ صرف حکومت کے لئے دردِ سر بن چکی ہے بلکہ ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے جو کئی دھائیوں سے ”انقلاب“ کی نوید سنارہی ہیں۔ دراصل پی پی کا جیالا نواز شریف جیسے پرانے اور فطری حریف کے ساتھ آصف زرداری کی ”مک مکا“ والی سیاست سے مضطرب اور ناراض ہے۔ گو نواز گو کے نعروں نے جہاں نواز شریف کوپریشان کررکھا ہے وہاں حکومت کے حلیف سیاستدانوں کو بھی اب فکر ہوگئی ہے۔ چنانچہ PP نے کراچی جیسے بڑے صوبائی صدر مقام میں ان جیالوں کو جوش اور ولولہ دکھانے کا موقع دیا۔ اس جلسے میں تھکے ہارے لوگوں کی اکثریت اندرون سندھ کی تھی جو ہر بار ان قائدین کی فراہم کردہ گاڑیوں میں بیٹھ کر ان جانی منزلوں کی طرف سفر کے عادی ہیں۔ ”فرینڈلی اپوزیشن“ کے طعنے سن سن کر پی پی کے ورکرز تنگ آچکے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت وفاق میں نواز حکومت کو سب سے بڑی سپورٹ دینے والی جماعت بھی یہی ہے۔ زرداری صاحب نے گذشتہ دو ماہ میں نواز شریف کے سیاسی مشیر اور خیرخواہ کا رول ادا کیا ہے۔ ان کی یہی صورت حال سندھ حکومت میں بھی ہے۔ ایم کیو ایم کے ”جن“ کو بھی انہوں نے ”مصالحت کی بوتل“ میں بند کئے رکھا ہے۔ چنانچہ ان سب حالات و واقعات کے پیش نظر نوخیز بلاول نے کہنہ مشق سرپرستوں کے مشورے پر سب کی خوب خبر لی ہے۔ انہوں نے جیالوں کے جوش و خروش کو قائم رکھنے اور اپنی آئندہ حیثیت کو یہاں کے سیاسی حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے مناسب سمجھا کہ ایم کیو ایم اور نواز شریف سمیت عمران خان وغیرہ کا منہ نوچا جائے تاکہ لوگ سمجھیں کہ ہاں بھٹو ازم کا وارث اپنے سیاسی اور نظریاتی حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس جلسے سے خطاب کے بعد کم سن بلاول پاکستان کی سیاسی دلدل میں اتر گئے ہیں اور ان کے خطابات کا ردعمل بھی آنا شروع ہوچکا ہے۔ ایم کیو ایم شاید ساتویں بار سندھ حکومت سے ایک بار پھر الگ ہوگئی ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
اب آجائیں گذشتہ رات مینار پاکستان پر ہونے والے تیسرے بڑے عوامی اجتماع کی طرف۔ مینار پاکستان بھی مزار قائد کی طرح ایک بڑا وسیع میدان ہے جس کو بھرنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے اس عظیم الشان اجتماع کی یہ خصوصی اہمیت تھی کہ وہ دھرنوں کے 2 ماہ اور 5 دن بعد اس اجتماع کے ذریعے لاہور میں داخل ہورہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اسے انقلاب کی کامیابی کا سنگ میل قرار دیا۔ اس سے قبل فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں بھی وہ ایک بڑا عوامی اجتماع اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے آئندہ اتوار 23 اکتوبر کو صوبہ پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ایبٹ آباد میں عوامی طاقت کے مظاہرے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ بعد ازاں وہ پورے ملک کے اہم مقامات پر اسی طرح کے عوامی اجتماعات منعقد کریں گے۔ اسی طرح عمران خان بھی دھرنوں سے اٹھ کر پورے ملک میں جارہے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن بھی جواب آں غزل کے طور پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے سراج الحق کہاں خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے بھی پورے ملک میں عوامی اجتماعات کا شیڈول مرتب کرلیا ہے۔ اب رہ گئی ن لیگ جسے عمران خان ہر جلسے سے خطاب کے دوران طعنہ دیتے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو مینار پاکستان پر جلسہ کرکے دکھادو۔ اب خبر آئی ہے کہ جلسوں کے اس ”موسم ناروا“ میں مسلم لیگ ن نے بھی ہر جگہ ضلعی کنونشن منعقد کرنے کا پروگرام بنالیا ہے۔قارئین! یہ جلسے متحرک عوامی جذبات کی علامت ہیں۔ مگر ان پر اٹھنے والا حکومتی اور جماعتی سرمایہ کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا ہے۔ اگر تو یہ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں اور انکے ذریعے عوامی شعور کی تربیت ہورہی ہے اور مستقبل قریب میں بہتر نتائج متوقع ہیں تو ان کی کامیابی پر اظہار اطمینان کرنا چاہئے ورنہ اس غریب ملک میں یہ محض مالی وسائل کا ضیاع کہلائے گا۔