حقیقت یہ ہے کہ آزمائش کے اس مرحلے پر نام نہاد دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت بے نقاب بھی ہوئی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ کرنے سے بھی نہ چوکی جبکہ کشمیری اخلاقی لحاظ سے بھی سرخرو ہوئے۔ بالخصوص کشمیری نوجوانوں اور طلبہ نے ریسکیو کے کام میں نئی نئی ایجادات کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ کشمیریوں کی نئی نسل ہر دم مجاہدانہ مزاحمت سے سرشار ہے اور مشکلات میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بننا جانتی ہے۔ جب کوئی قوم غیر ملکی استعمار کیخلاف بر سرپیکار ہو تو اس کے اندر مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کرنا مجموعی کلچر بن جاتا ہے۔ مصیبت کی گھڑیوں میں اس موقع پر کشمیریوں کے اس جذبہ مزاحمت کا بھر پور مظاہرہ ہوا اور ہر فرد نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اس عرصے میں مقبوضہ کشمیرکے قائدین کے ساتھ بھرپور رابطے کی کوشش رہی۔ کئی روز کی تگ و دو کے بعد محترم سید علی گیلانی کے ساتھ رابطہ ہو سکا۔ صحت کی کمزوری کے باوجود وہ نوجوانوں کے شانہ بشانہ مصروف رہے۔ انکی زبانی تباہی کی کچھ تفصیلات ملیں اور پیغام دیا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بیت رہا ہے حکومت پاکستان اور عالمی برادری تک صورتحال پہنچائیں اور انہیں پیغام دیں کہ آگے بڑھ کر ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ بھارتی حکومت سے نہ کوئی توقع رکھیں اور نہ انحصار کریں۔ ان کے پیغام کی روشنی میں وزیراعظم پاکستان کو ایک تفصیلی خط لکھا اور کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے کنوینئر کی حیثیت سے وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور دیگر سیاسی قائدین اور قائدین حریت کا فی الفور اجلاس منعقد کر کے اپنے متاثرہ بھائیوں کیلئے امداد پہنچانے کے ذرائع پر غور و خوض ہوا۔ کشمیری قیادت کی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر اپنے ترقیاتی بجٹ تخمیناً دس ارب روپے مقبوضہ کشمیر کیلئے مختص کرنے کا ایک پریس کانفرنس میں اعلان کریں جس کا فی الفور اہتمام کیا۔ باقی قائدین کے ہمراہ چوہدری عبدالمجید صاحب نے اعلان کیا کہ نہ صرف ترقیاتی بلکہ غیر ترقیاتی بجٹ کا بھی ایک حصہ ہم اپنے بھائیوں کیلئے مختص کرنے کیلئے تیار ہیں۔ شرط یہ ہے کہ بھارتی حکومت بین الاقوامی ریلیف اداروں کو رسائی فراہم کرے ‘ اس طرح آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں بھی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے اس فیصلے کی توثیق کی گئی۔ اسی عرصے میں پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین سابق وزیراعظم جناب راجہ پرویز اشرف ‘ جناب قمر الزمان کائرہ اور زمرد خان ‘ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی یاد میں یاد گار کے سنگ بنیاد کے موقع پر مظفر آباد پہنچے۔ کل جماعتی رابطہ کونسل کیساتھ انکی بھی ایک بھرپور نشست ہوئی۔ قائدین حریت نے وہاں کی تفصیلی صورتحال رکھی اور گلہ کیا کہ اس قیامت صغریٰ کے موقع پر پاکستانی قیادت‘ حکومت اور ذرائع ابلاغ کا مطلوبہ کردار مفقود نظر آیا۔ انہیں تجویز دی گئی کہ وہ پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی حکومت کے مایوس کن رویے کو زیر بحث لاتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد منظور کروائیں۔ انہوں نے حسب وعدہ قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ کے ذریعے مشترکہ اجلاس میں بحث بھی کی اور حکومت اور پارلیمنٹ کو اس حوالے سے متوجہ کیا۔ اس سلسلے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق صاحب کیساتھ قائدین حریت کی تفصیلی میٹنگ ہوئی اور ان سے اس توقع کا اظہار کیاگیا کہ جماعت اسلامی پاکستان ہمیشہ کی طرح اس موقع پر آگے بڑھ کر پاکستانی ذرائع ابلاغ اور رائے عامہ کو اس حوالے سے متحرک کرے اور حکومت پاکستان کو بھی متوجہ کرے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مصیبت زدہ بھائیوں کیلئے خود بھی فعال کردار ادا کرے اور بین الاقوامی اداروں کو بھی متحرک کرے۔ اجلاس کے بعد بھرپور پریس کانفرنس میں جناب سراج الحق نے پوری تفصیلات سامنے رکھیں اور حکومت اور عالمی برداری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم جناب میاں نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر اصولی اوردو ٹوک موقف کو انتہائی جرا¿ت کے ساتھ اجاگر کیا۔ کل جماعتی کشمیررابطہ کونسل کے زیر اہتمام مشاورت میں فیصلہ کیا گیا کہ واپسی پر تمام کشمیری قائدین ائر پورٹ پر ان کا استقبال کرینگے اور ان کا شکریہ بھی ادا کرینگے۔ اس موقع پر بھی وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید قائد حزب اختلاف راجہ فاروق حیدر سمیت تمام کشمیری قیادت موجود تھی۔ مقبوضہ کشمیر کے تمام سینئر قائدین حریت اور حریت پسند رہنما بھی موجود تھے۔ اس استقبالی ملاقات میں بھی کشمیری قائدین نے جہاں ایک طرف وزیراعظم صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کی تباہ کاریوں کے بارے میں متوجہ بھی کیا ۔ جناب میاں نواز شریف نے اس موقع پر وعدہ بھی کیا کہ وہ جلد ہی کشمیری قیادت کے ساتھ ساری صورتحال پر مشاورت کر کے ضروری اقدامات کرینگے۔ اﷲ کرے ایسی ملاقات جلد ہو کیونکہ بین الاقوامی ریلیف ایجنسیوں کی مقبوضہ کشمیر تک رسائی کیلئے بھارتی حکومت کی رضا مندی ایک اہم مسئلہ دو طرفہ اور بین الاقوامی تعلقات اور دباﺅ کوبروئے کار لا کر ہی اس کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی بحیثیت فریق اہم ذمہ داری ہے لیکن حکومت پاکستان کی خاموشی انتہائی تشویشناک ہے۔ حکومت کو چپ کا روزہ توڑ کر خود بھی ایک بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے اور بین الاقوامی برداری بالخصوص O.I.C ممالک سے بھی بھر پور امداد کا اہتمام کرنا چاہیے اور دنیا پر یہ واضح بھی کرنا چاہیے کہ آزاد کشمیرمیں زلزلے کے موقع پر کس طرح عالمی برادری کے تعاون کا حکومت پاکستان ور افواج پاکستان نے اہتمام کیا اور بھارت آج بین الاقوامی ریلیف ایجنسیوں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے والے اداروںکی حوصلہ شکنی کر رہا ہے ۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی امداد کا اہتمام نہ ہوا تو مقبوضہ ریاست میں مستقبل قریب میں شدید قحط سالی کا خطرہ ہے۔ ایسی قحط سالیوں ہی کے نتیجے میں کشمیری کئی بار پہلے بھی بڑے پیمانے پر ہجرت کرتے رہے ہیں اور شاید بھارت قحط کی صورت میں ایک اور آزمائش اہل کشمیر پر مسلط کرنے پر تُلا ہوا ہے اس لیے کہ اسے محض کشمیر میں زمین سے دلچسپی ہے جسے وہ کشمیریوں سے خالی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح پاکستان کی قومی سیاسی قیادت اور ذرائع ابلاغ کو اس انسانی المیہ کو اپنا موضوع بنانا چاہیے۔ کشمیری ریاست کے دونوں حصے میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے سخت نالاں ہیں کہ وہ اس موقع پر بھارتی اداکاروں کی ایک ایک ادا کی تفصیلات کی کوریج کا اہتمام کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن اس عظیم انسانی المیہ کو وہ مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں جو شدید لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی قائدین ‘ علمائے کرام ‘ اہل دانش اور پوری قوم اپنے مظلوم بھائیوں کو دعاﺅں میں یاد رکھیں اور انکے ساتھ اپنے قابل اعتماد ذرائع سے تعاون کی بھی کوشش کریں۔ (ختم شد)