ویلکم بلاول بیٹا! آج کل جبکہ عمران خان کا سونامی اور طاہرالقادری کا انقلاب شہر شہر قریہ قریہ آوارہ گردی کر کے ن لیگ اور پی پی پی کی سیاسی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے اور ابھی مزید نقصان پہنچانے کا بھی اردہ ہے ان نازک ترین حالات میں بلاول زرداری کا کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ کرلینا یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں، عمران خان اور طاہر القادری چلے ہوئے کارتوس کے پیچھے جس طرح پڑے ہوئے ہیں اسے دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے یہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ کھیل آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور دونوں بڑی اور اہم وکٹیں ٹھاہ کی آواز کیساتھ گرنے لگی ہیں مگر بلاول زرداری نے کراچی میں ایک کامیاب جلسہ کر کے پارٹی کے تن مردہ میں زندگی کی روح بھرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جسطرح شہید مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے زندہ اور امر ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح انکی نشانیاں بھی آسانی سے مٹائیں نہیں جاسکتی جسطرح یہ نعرہ آج بھی گونج رہا ہے کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے بالکل یہی بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ جب تک بھٹو کا نام زندہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ میں یہ سچ بیان کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آصف زرداری کے بیٹے کو سننے کیلئے نہیں آیا بلکہ پاکستان کے غر یب، مزدور، کسان، محنت کش اور سفید پوش لوگ اپنے پیارے شہیدوں کی یاد کو زندہ کرنے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو محافظ ختم نبوت ذوالفقارعلی بھٹو شہید اور دختر شہید سے جنون کی حد تک پیار وعشق کرتے ہیںٗ وہ شہیدوں کی اور ارواح کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے حاضر ہوئے تھے مگر انکے آمد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نیم جان جسم میں زندگی کی لہر دوڑا دی اور شہید باپ کی بیٹی کی قربانیوں کے صدقے میں دوبارہ زندہ ہوجانے والی پارٹی سے اب مستفید ہو رہا ہے اب زرداری خاندان، کراچی میں ہونیوالے اس جلسہ نے ن لیگ کے اندر بھی نئی روح ڈالی ہے کیونکہ عمران خان اور علامہ کے مسلسل تابڑ توڑ حملوں نے واقعی حکومت کے چولیں ہلانا شروع کر دی ہوئی تھیں۔ امید تو یہی کی جا رہی ہے کہ کراچی کے اس بڑے جلسہ کے بعد پی پی پی اور ن لیگ کے احساس کمتری میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آئیگی۔بلاول زرداری نے اپنی طویل اور جذباتی تقریر میں جو کچھ کہا اہم نکات کالم کے الگے حصے میں بیان کرونگا البتہ چند ضرورری باتیں دوستوں تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں اس سچائی کی روشنی میں کہ بلاول زرداری کو جلسہ سے خطاب کرنے کیلئے سکیورٹی کا ایک فولادی دھار بنوانا پڑا، کراچی شہر کو تقریباً سیل ہی کردیا گیا تھا۔ ایک دن کیلئے کراچی کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ شاید یہ سب کچھ کرنا ضروری سمجھا گیا یا پھر ہمارے یہاں کی ریت ہے کہ سکیورٹی یا پروٹوکول کے نام پر سب کچھ جام کر دیا جاتا ہے۔بلاول زرداری نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کر کے اپنی سیاست کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ بلاول نے اپنی طویل اور جذباتی تقریر کو جو کچھ رٹایا گیا اس نے کسی رکاوٹ کے بغیر کہہ ڈالا اور یہ بات میں بیانگ دہل کہہ سکتا ہوں کہ بلاول کی تقریر کی خوشبو نہیں تھی۔ جلسہ میں شہدا کی خوشبو کا نہ ہونا قدرتی امر تھا اسلئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو خالص خوشبو بے نظیر تھیں۔ بے نظیر جہاں جاتیں فضا اور ماحول بھٹو شہید کی خوشبو سے مہک اٹھتے تھے اس لئے جیالوں کے نزدیک بھٹو کی تصویر بے نظیر ہی تھی۔ صرف نام کے ساتھ بھٹو لگانے سے کوئی بھٹو نہیں بن سکتا۔ بھٹو اور زرداری دو مختلف نسلیں اور ذاتیں ہیں، بلاول اپنے باپ آصف زرداری کا خون اور خوشبو ہے اسے باپ ہی کے نام سے اپنی پہچان بنانی چاہئے البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام لوگ صرف بلاول ہی سے نہیں آصفہ اور بختاور سے بھی پیار کرتے ہیں کیونکہ تینوں بچے بے نظیر کی نشانی ہیں، خوشبو ہیں۔بلاول کی تقریر پر ایک نہیں درجنوں سوالات کئے جا رہے ہیں اور شاید زیر نظر کالم کی اشاعت تک منظر عام پر بھی آ چکے ہوں اس لئے میں کالم کو بلاول کی کی ہوئی چند اہم باتوں تک محدود کر رہا ہوں حالانکہ مذکورہ جلسہ کے بارے میں کمنٹ آسانی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے کہ شہر کو بند کر کے جلسہ کیلئے لوگ اکٹھے کر لیناکوئی بڑا معرکہ نہیں۔ سرکاری وسائل سے کیا جانیوالا بڑا جلسہ جس نے بھٹو اور بے نظیر کے سوالوں کو ایک بار پھر رلا دیا ہے جلسہ میں موجود ہر مرد اور عورت کے چہرے پر صرف ایک سوال نظر آ رہا تھا کہ بی بی کے قاتل کون تھے کہاں ہیں اور پکڑے کیوں نہیں گئے صرف بیت اللہ محسود کا نام لے دینا ہی کافی نہیں ایک اور سوال بھی ہر چہرے پر پڑھا گیا کہ پی پی پی کی حکومت جاتے ہی بھٹو قتل کیس کو کیوں دفنا دیا گیا ہے کیس کی پیروی کیوں نہیں کی جا رہی ۔ دونوں سوالوں کے جواب نہایت آسان ہیں عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
بلاول زرداری کی طویل تقریر کی تفصیلات منظر عام پر آچکی ہے چیدہ چیدہ نکات پیش ہیں۔ بلاول نے کھلے الفاظ میں کہا کہ بھٹو شہید کی پھانسی سے لیکر آج تک ایک ہی سکرپٹ پر کام ہو رہا ہے اور پاکستان میں سول وار کی ابتداء تک کام جاری وساری رہے گا۔ بلاول نے کہا کہ صرف بھٹو ازم ہی ملک کو سول وار سے بچا سکتا ہے۔ پنجاب حکومت کا تذکرہ کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ جنوبی پنجاب دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ قارئین! بلاول کی تقریر پر شدید ردعمل سامنے آیا ردعمل دینے والوں میں ن لیگ اور پی ٹی آئی شامل ہیں۔ کراچی جلسے میں ایک جذباتی، طویل اور فی البدیہ تقریر کر کے بلاول نے ثابت کر دیا ہے کہ آصف زرداری اچھے استاد اور کوچ بھی بنے سکتے ہیں۔ بلاول سے زیادہ انکے کوچ یا استاد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کہ پاکستان نوجوان نووارد سیاستدان کو ویلکم کرے میں بھی اپنی طرف سے بلاول زرداری کو وارثتی سیاست میں ویلکم کہتا ہوں۔
بلاول زرداری مزار قائد پر
Oct 21, 2014