دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

Oct 21, 2014

قرۃ العین فاطمہ…

 عام لوگوں کی رسائی اس تک ممکن ہوتی فوج میں شامل ہونے کیلئے بہت سے کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے ہاتھ اتنے بے ہنر کیوں؟ جس طرح ایک آٹھ سال کے بچے کی گھر سے تربیت شروع ہوتی ہے تو ایک فوجی بنو گے تم ن وطن کے کام آنا ہے۔ تمہارا لہو قوم کی امانت ہے اور شہادت تمہاری منزل ہے کہ انہوں نے اپنے فرض کا حق ادا کر دیا اور قوم کی امانت میں خیانت نہیں کی۔ اسی طرح ایک سیاست دان ایک لیڈر ہونا چاہئے۔ ان کی تربیت ایسے اداروں میں ہونی چاہئے جو ان کو غیرت کا سبق دیں، اللہ تعالیٰ اور معاشرے کے سامنے جوابدہی کا خوف انکے خون میں شامل کر دیا جائے۔ جو ملک کو باوقار، مہذب، ذہین اور سب سے بڑی بات ملکی مفادات پر جان تک قربان کر دینے والی قیادت دے سکیں، ایسی قیادت جو عالمی استحصالی طاقتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو سکے، اسلام کے قلعے، پاکستان کو اور مضبوط بنا کر عالم اسلام کے امن، ترقی، خوشحالی اور سر بلندی میں معاون ثابت ہو سکے ۔ ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب با صلاحیت اور اہل لوگوں کے ہاتھ میں قیادت ہو، نہ صرف سارا نظام درست ہو جائے گابلکہ موازنوں کی شرمندگی سے بھی بچا جا سکے گا۔
دوسرا اہم قدم تمام جماعتوں کو دو یا تین بڑی جماعتوں میں ضم کر دیا جائے۔ تا کہ ہر کوئی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد قائم نہ کر سکے اور ایسے لوگ جو اپنے مفادات کی خاطر پارٹی بدل لیتے ہیں اس پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے اک پارٹی کو چھوڑ کر آنے والے کو دوسری پارٹی کسی بھی صورت تسلیم نہ کرے۔ ایسی جماعتیں جو ملک میں تبدیلی کا اور انقلاب کا نعرہ لگا رہی ہیں ان کو بھی اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملتان کے ضمنی انتخابات میں جیتنے والے عامر ڈوگر اسی خاندانی سیاسی نظام کا حصہ ہیں جس کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی ہے لیکن تحریک انصاف نے نہ صرف انہیں سپورٹ کیا بلکہ وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے اپنی پارٹی میں شامل بھی کر لیا۔ شاہ محمود قریشی سے لے کر عامر ڈوگر تک اگر انہیں لوگوں کی تبدیلی کی جماعت کا حصہ بننا ہے جن کے باپ دادا سے سیاست انکو ورثہ میں ملی ہے تو ایسی تبدیلی دیر پا نہیں رہ سکتی۔ ڈاکٹر طاہر القادری اگر حقیقی انقلاب کے خواہاں ہیں اور اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس کار خیر کا آغاز اپنی جماعت سے کریں اور پارٹی کو چھوڑ کر آنیوالوں کو قبول نہ کریں۔ اگر کوئی انکے ایجنڈے سے متفق ہے تو اسکو خوش آمدید کہا جا سکتا ہے، مگر اپنی جماعت میں صرف ان نوجوانوں کو جگہ دیں جن کو سیاست ورثہ میں نہیں ملی۔ ان جماعتوں کو ہاشمی کے رویہ سے سبق حاصل کر لینا چاہئے، ووٹ ڈالنے کیلئے صرف پڑھا لکھے طبقے کی رائے کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے کم از کم تعلیمی میٹرک ہونا چاہئے۔ ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے کا شعور اک جیسا نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت میں بندوں کے گنے جانے کے عمل کو اب ختم ہو جانا چاہئے۔ کیوں کہ پڑھا لکھا با شعور طبقہ ہی تبدیلی لا سکتا ہے۔
اسکے علاوہ سب سے اہم قدم جوان نا اہل سیاست دانوں کو ہیرو بناتا اور مشہور کرتا ہے، وہ الیکٹرانک میڈیا ہے، وہ کیوں ایسے لوگوں کو وقت دیتا ہے جنہوں نے ملک کو لوٹ کھانے کے علاوہ کسی عالمی یا بلاول کی فضول سر گرمیاں میڈیا کس عملی میدان میں پاکستان کی یا عوام کی ذرہ بھر بھی خدمت نہیں کی۔ حیثت سے دکھا رہا ہے؟ صرف زرداری کا بیٹا ہونے کے علاوہ اس نے کونسی قومی خدمت سر انجام دی ہے؟ اس سے زیادہ لوگ ملکی اور قومی خدمت میں مصروف کوریج کے حقدار ہیں۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ ایسے محب وطن لوگوں کو منظر عام پر لائیں، جو وسائل کی کمی کے باوجود ملک کی خدمت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان پڑھ اور بد تمیز سیاست دانوں کو اپنے پروگرامز میں بلانے کی بجائے مختلف شعبوں کے پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگوں کو بلا کر صحت مند گفتگو کے ذریعے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں لوگوں کے شعور کو بیدار کریں۔انکی تربیت کیلئے پروگرام کریں۔اگر یہ چند مثبت اقدامات اٹھا لئے جائیں تو بہت بڑی حد تک پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس دشت امید میں دوانے کب سے بھٹک رہے ہیں۔ اور اب باتوں کی سیاست سے نکل کر عملی طور پر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، تا کہ موازنوں کی شرمندگی سے بچا جا سکے۔(ختم شد)

مزیدخبریں