جلسے والوں کا اسکرپٹ کیا ہے

Oct 21, 2014

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

جلسے اور دھرنے والوں کا اسکرپٹ یہ ہے کہ ایک طرف سے بھارت ، دوسری طرف سے ایران، تیسری طرف سے دہشت گرد اور چوتھی طرف سے امریکہ اور اس کے نیٹو حلیف پاکستان کا نمدا کسیں گے اور یہ جلسے ا ور دھرنے والے ملک میں سیاسی انتشار کو ہوا دے کر قوم اور افواج پاکستان کو اس قابل نہیں چھوڑیں گے کہ وہ ملک کی سیکورٹی اور آزادی کا تحفظ کر سکیں۔ اگر آپ غور کریں تو ایک پارٹی کانعرہ ہے نیا پاکستان اور دوسری پارٹی کا نعرہ ہے، انقلاب۔یہ دونوںنعرے موجودہ پاکستان کے اندر تو پورے نہیںہو سکتے، اس کے لئے نیا پاکستان بنانا اور پرانے پاکستان کو خون سے غسل دینا ضروری ہے۔
1971 میں قائد اعظم کے پاکستان کو خون کا غسل دیا گیا اور نیا پاکستان بنا لیا گیا، یہ پاکستان قائد اعظم کے تخلیق کردہ ملک کو دو لخت کر کے تشکیل دیا گیا۔
دھرنے اورانقلاب والوں نے کوشش پوری کی کہ کسی طرح موجودہ پاکستان پر قابض ہو جائیں، وہ لاہور سے عوام کا لشکر لے کر نکلے، راجدھانی پر حملہ آور ہو ئے،شروع میں ان کامطالبہ صرف انتخابی دھاندلی کی شکایات دور کرنا تھا، پھر انہوں نے وزیر اعظم کا استعفی مانگ لیا۔ یہ حلوے کی فرمائش ہوتی تو شاید انہیں پوری دیگ پیش کر دی جاتی، لیکن یہ ایک آئینی معاملہ تھا ور آئین میں کوئی وزیر اعظم دھرنے، دھونس، جلسے، جلوس کے ذریعے نہیں، پارلیمنٹ میں ووٹ کی اکثریت سے عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس مقصد میںناکامی دیکھ کر اب بظاہر ان دونوں پارٹیوںنے جلسے شروع کر دیئے ہیں، اور جلسے روز ہو رہے ہیں، ایسے جلسے صرف الیکشن سے چند ماہ پہلے شروع ہوتے ہیں مگر اگلے الیکشن میں چارسا ل پڑے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف تو ایک صوبے میں حکومت میں موجود ہے، وہ مڈٹرم الیکشن چاہتی ہے تو پہلے اپنے صوبے کی حکومت چھوڑے اور مڈٹرم الیکشن پرحکومت کو مجبور کرے ، مگر اس پارٹی نے کمال عیاری سے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے ہیں اور وہ بھی قبول نہیں ہو رہے کیونکہ اس کے لئے اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر تصدیق کرنا ضروری ہے کہ آیا انہوںنے استعفی دیا ہے یا نہیں، جاوید ہاشمی نے اپنا استعفی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خود دیاا و ر فوری منظورہو گیا،ا س کی خالی نشست پر ضنمنی الیکشن بھی ہو گیا اور جاوید ہاشمی ہار کر گھر بیٹھ گیا۔تحریک انصاف بھی طریقے سے مستعفی ہوجاتی ا ور اب تک ضمنی الیکشنوں میںٹھنڈی ہو چکی ہوتی۔ مگر اسے الیکشن تو چاہیئں نہیں ، اس کا اسکرپٹ تو انتشار پھیلانے کاہے،قومی یک جہتی کو تار تار کرنے کا ہے اور ملک اور قوم کو کمزور بنا کر اسکرپٹ لکھنے والوں کے مذموم عزائم کو پروان چڑھا نے میںمدد دیناہے۔
عمران اور قادری کو اس ملک سے کیا دلچسپی ہے، ان کی ا ولاد باہر ہے، ملک کے اندر ان کا پان کا کھوکھا تک نہیں، ہاں، چندہ چاہیے، وہ بیرونی ملکوں سے بھی مل سکتا ہے ا ور پاکستان سے بھی مل سکتا ہے۔عمران کہہ سکتا ہے کہ اس کا کینسر کا ہسپتال ہے مگر یہ بچوں کی جیب سے نکلنے والوں پیسوں سے بنا ہے، یا اسکے لئے کچھ سرمایہ بیرونی ملکوں کے مہنگے ہوٹلوں میں فنڈ ریزنگ ڈنرز میں اکٹھا ہوا ہے، عمران نے اپنی جیب سے کچھ ڈالا ہو گا، کچھ پلاٹ اس کے نام کر دیئے ہوں گے جو قوم اور ملک کی طرف سے ملے۔اپنے خاندان کی میراث سے شاید ہی کوئی دھیلہ اس میں ڈالا ہو گا، اور اگر ڈالا بھی تو پھر بھی اس ہسپتال کو چندوں سے چلنا ہے۔
انقلاب ، آزادی اور نیاپاکستان والوں کا کچھ بھی تو اسٹیک پر نہیں، تو پھر واویلا کس بات کا۔درد کیوں اٹھ رہا ہے اور وہ بھی وقت سے پہلے۔ حکومت کی ٹرم پانچ سال کی ہے،اسے پورا ہو لینے دو، پھر دھماچوکڑی مچا لو۔مجھے حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی کی مت کیوںماری گئی، اس نے جلسے کیوں شروع کر دیئے، اور جلسے بھی ایسے جن میں فیڈر منہ میںلئے ایک میڈم نما نوجوان اپنے نا نا بھٹو کی نقل میں تقریریں جھاڑ رہا ہے، نہ اس کے اند ر کوئی پیغام، نہ اس کے لب و لہجے میں کوئی جوش و خروش، نہ سامنے کوئی خاص مجمع،بس وہ چیختا ہے اور اپنے حریفوں کو ایک ایک گالی دیتا ہے اور اسٹیج سے اتر جاتا ہے، اس کی زبان درازی سے ایم کیو ایم کا مزاج بگڑ گیا ہے،اس نے سندھ میں اتحاد ختم کرنے کاا علان کر دیا ہے، ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی معافی تلافی میں کامیاب ہو جائے مگر کس کس سے معافی تلافی کی جائے گی، یہ چھوکرا تو ہر کسی کی پگڑی اچھالتا ہے۔ بھٹو نے بھی یہی کیا تھا اور اپنے کئے کی سزا بھی پا لی تھی۔ تو کیا ضروری ہے کہ بھونڈی نقل کی جائے اور وہ بھی بلا وجہ، بے بنیاد، بلا جواز۔پیپلز پارٹی کے زرداری سے زیادہ کس کو علم ہے کہ ابھی کوئی الیکشن نہیں ہو رہے اور یہ الیکشن اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک پیپلز پارٹی ملک مکا کے اصول پر قائم ہے، یہ اصول لندن کے میثاق جمہوریت میں طے ہوا تھا اور اسی اصول کی بنیاد پر زرداری نے اپنی صدارتی ٹرم پوری کی،اس کے وزرائے ا عظم کی نہیں ہوئی تواس کی بلا سے۔نواز شریف نے فرینڈلی اپوزیشن کاکردار ادا کیا، وہی کردار زرداری کو ادا کرنا ہے مگر اس نے بیچ میں کھنڈت ڈالنے کے لئے اپنا بیٹا چھوڑ دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کو اتنی سمجھ تو ہونی چاہئے کہ عمران اور قادری فوری الیکشن کا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، وہ صرف انتشار پھیلا سکتے ہیں۔جلسے جلوسوں سے لوگوں کے بلڈ پریشر کو بڑھا سکتے ہیں، سستی نعرے بازی سے اوٹ پٹانگ خواب دکھا سکتے ہیں۔ان کے پاس ملک و قوم کی فلاح کا کوئی بھی پروگرام ہوتا تو عمران کم از کم اپنے صوبے کی تقدیر تو بدل کر دکھا دیتا ۔مگر وہ تو بیرونی قوتوں کا آلہ کار بنا ہواہے، دانستہ یا نا دانستہ۔
اور بیرونی قوتوں کے لشکر بھی پاکستان سے چھیڑ چھاڑ میںمصروف ہیں، چھیڑچھاڑ تو رہی ایک طرف، کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر منی جنگ کی کیفیت ہے، ایران کے ارادے کیا ہیں، وہ بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی قوم کی صفوںمیں دراڑ ڈال دی جائے، حکومت کو عضو معطل بنادیا جائے، اور روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دیا جائے۔قادری اور عمران اسکرپٹ کے اسی حصے پر عملہ پیرا ہیں۔

مزیدخبریں