اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ختم نہیں ہوا‘ اس پر پیشرفت جاری ہے‘ پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دے گا‘ پاکستان ایران سرحد غیر محفوظ ہے‘ بارڈر میکنزم بہتر بنانے کیلئے علاقائی اور عالمی کوششیں کررہے ہیں، وزیراعظم کے دورئہ ایران سے تعلقات میں بہتری آئی، سرحد کو مضبوط بنانے کیلئے جلد ایرانی حکام سے بات چیت ہوگی، پاکستان افغانستان سمیت خطے کے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے‘ دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر قائم رہیں‘ پاکستان افغانستان میں تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے سرمایہ کاری کرنے والے کسی بھی ملک کو خوش آمدید کہے گا‘ چین اور پاکستان مضبوط‘ محفوظ اور پرامن افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں‘ افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار خوش آئند اور اہم ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے‘ افغانستان کیساتھ 1990ء والی صورتحال نہیں چاہتے‘ افغانستان سمیت خطے میں علاقائی تعاون آگے بڑھائیں گے۔ پاکستان، چین انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام سہ ملکی سیمینار کے اختتامی سیشن سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ افعانستان میں پرامن انتقال اقتدار اہم پیشرفت ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک صدر سے اقتدار دوسرے صدر کو منتقل ہوا، اسلئے افغانستان میں سیاسی استحکام اور علاقائی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں وہ ملکی معیشت کی مضبوطی سمیت افغانستان میں بھی معاشی بہتری کے خواہاں ہیں۔ حکومت معاشی استحکام کے ایجنڈا کو ہر صورت پورا کرے گی۔ چین پاکستان اور افغانستان خطے کے اہم ممالک ہیں جنہیں دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان خطے کے کسی بھی ملک کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ خطے کے دیگر ممالک بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کریں۔ چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری خوش آئند ہے۔ پاکستان افغانستان میں معاشی استحکام اور تعمیری کاموں کیلئے سرمایہ کار کرنے والے کسی بھی ملک کو خوش آمدید کہے گا۔ پاکستان ذمہ دار ملک ہے جو دہشت گردی سے نجات کیلئے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے۔ افغانستان میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں۔ 1990ء والی صورتحال دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ عالمی برادری افغانستان میں سرمایہ کاری کرے تاکہ وہاں کے عوام کے حالات میں بہتری آسکے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ ایران سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی تھی۔ پاکستان ایران سرحد کے بعض علاقے غیر محفوظ ہیں۔ بارڈر اور اردگرد مختلف جرائم پیشہ عناصر کی ٹھکانے ہیں جو کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ حکومت عالمی اور علاقائی سطح پر بارڈر کی مضبوطی کیلئے میکنزم تیار کررہی ہے جلد اس حوالے سے ایرانی حکام سے بات چیت ہوگی تاکہ آئندہ کوئی بھی غلط فہمی پیدا نہ ہوسکے۔ افغانستان مزید کسی پراکسی وار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں چین اور پاکستان اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کابل کا دورہ کامیاب رہا‘ جلد افغان صدر بھی پاکستان آئیں گے۔ افغان صدر کو یقین دہانی کرائی ہے کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ آج افغانستان 2011ء کی نسبت بہتر ہے۔ اقتدار کی منتقلی افغانستان کے ساتھ پاکستان کیلئے بھی تاریخی ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان ایران سرحد پر حالیہ واقعات افسوسناک ہیں۔ گذشتہ 2 سال میں پاکستان ایران تعلقات بہتر ہوئے۔ سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی فضا خطے کیلئے مسئلہ ہے۔ چینی سفیر سن وئی تونگ نے کہا کہ پاکستان، چین اور افغانستان خطے کے اہم ترین ممالک ہیں، تینوں کے مابین قریبی تعلقات کو پروان چڑھانے کیلئے مل جل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ قریبی تعلقات کس قسم کے ہوسکتے ہیں اور کیا افغانستان کسی تیسری عالمی طاقت کے بڑھتے اثر و رسوخ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ پاکستان میں افغان سفیر جاناں موسیٰ زئی نے کہا کہ آج کا افغانستان 2001 کے افغانستان سے یکسر مختلف اور ترقی یافتہ ہے، آج جمہوری افغانستان پارلیمنٹ، عدلیہ، نیشنل آرمی، سول سوسائٹی، انٹرنیٹ، میڈیا سے متعلقہ جدید طرز زندگی کے تمام تقاضے پورے کرنے میں مصروف عمل ہے۔ چینی سفیر سن وئی تونگ نے کہا کہ چین پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے جبکہ جہاں ایک طرف پاک چین دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہیں افغانستان کی ترقی و خوشحالی کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ملک کا اعزاز رکھتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ نے کہا کہ افغانستان میں سرمایہ کاری ہی چین کو اس کی جانب کھینچ رہی ہے۔ کانفرنس کے مندوبین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ انتہا پسندی، دہشت گردی، علیحدگی پسندی جیسے چیلنجوں کا مقابلہ باہمی طور پر تینوں ممالک کے مابین قریبی تعلقات کی بدولت ہی کیا جاسکتا ہے۔ سیمینار سے رستم شاہ مہمند، ریاض کھوکھر اور مشاہد حسین نے بھی خطاب کیا۔