سندھ اور قومی اسمبلی : پی پی پی‘ متحدہ میں گرما گرمی‘ الزام تراشیاں‘ ایم کیو ایم کا دونوں ایوانوں سے واک آئوٹ

کراچی + اسلام آباد (وقائع نگار + نمائندہ خصوصی +  ایجنسیاں) متحدہ قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے تنقید اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے لفظ مہاجر کو گالی دینے کے خلاف قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آئوٹ کیا ہے۔ قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی میں خوب گرما گرمی ہوئی۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس دھواں دھار تقریروں اور الزام تراشیوں کی نذر ہوگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو عہدے سے ہٹانے اور نئے انتظامی یونٹس قائم کرنے سے متعلق دو قراردادیں بھی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی ہیں۔ قرارداد کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ایوان میں اکثریت کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔ قرارداد میں مہاجروں سے متعلق اپوزیشن لیڈر کے بیان کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ دوسری قرارداد میں ایم کیو ایم نے نئی انتظامی یونٹس بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے صوبائی وزراء مستعفی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے استعفے گورنر اور وزیراعلیٰ کو فیکس کردیئے ہیں۔ اپوزیشن نشستوں کے لئے درخواست سپیکر کے پاس جمع کرا دی گئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے دو صوبائی وزراء ڈاکٹر صغیر احمد، رئوف صدیقی اور فیصل سبزواری سمیت تین مشیروں نے استعفے جمع کرا دیئے۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے سرکاری گاڑیاں اور عملہ بھی واپس کر دیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن بینچز کی الاٹمنٹ کے لئے ایم کیو ایم نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں درخواست جمع کروا دی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد کی سربراہی میں ارکان اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے چیمبر میں پہنچے اور درخواست جمع کرائی۔ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں لیکن مفاہمت کے نام پر منافقت پر یقین نہیں رکھتے۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ بہت احتیاط سے بات کی، مزید سخت بات ہو سکتی تھی۔ سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کی ناراضگی وقتی ہے، مل بیٹھ کر غلط فہمیوں کا ازالہ کر لیں گے۔ منظور حسین وسان نے کہا کہ ایم کیو ایم کی ناراضگی کی اصل وجہ لوکل باڈیز الیکشن ہے۔ ایم کیو ایم کے صوبائی وزراء اور مشیروں نے استعفے دینے کے بعد سرکاری دفاتر کا رخ نہیں کیا۔ ا یم کیو ایم کے وزراء اور مشیر دیگر ارکان اسمبلی کے ساتھ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے اور پھر چیمبرز میں چلے گئے مگر اپنے محکموں کے دفاتر میں نہیں آئے۔ ایم کیو ایم کے رہنما عادل صدیقی نے فوری طور پر اپنی سرکاری گاڑی بھی حکومت سندھ کو واپس جمع کرا دی ہے۔ قومی اسمبلی میں کافی گرما گرمی ہوئی۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ انگریز کے تلوے چاٹنے والے پاکستان کے مائی باپ بن گئے ۔ کالے انگریز آج بھی پاکستان پر قابض ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے انگریزو ں کے تلوے چاٹنے والو ں کو انعام ملتا تھا۔ بھارت کی طرح پاکستان میں جاگیرداری ختم نہ ہو سکی۔ قیام پاکستان کے وقت چار کروڑ آبادی پر چار صوبے تھے تینوں صوبے ایک قوم کے نام پر بنائے گئے۔ مہاجر پاکستان میں بھوکے ننگے نہیں آئے تھے۔ سندھ سے ہجرت کرنے والوں کی زمینیں مہاجروں کو نہیں دی گئیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زائد اور صوبے وہی چار ہیں۔ بھارت میں درجنوں صوبے بنائے گئے وہاں کسی نے نہیں کہا کہ دھرتی ماں کو تقسیم نہیں ہونے دونگا۔ بھٹو اور اس کی بیٹی نے قربانی دی۔ ہجرت سنت رسولؐ ہے گالی نہیں، حضور پاک ؐ نے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی۔ سندھ میں کیسے انصار ہیں جنہوں نے ہماری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان 14 اگست کو معرض وجود میں آیا۔ انگریزوں کی چاپلوسی کرنے والوں کو انگریز انعام دیا کرتے تھے۔ انگریز چلے گئے تو کالے انگریز آ گئے جن کو ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو جاگیر سمجھ لیا۔ وہ لوگ پاکستان کی ترجمانی کرتے تو ملک کے حالات ایسے نہ ہوتے۔ پاکستان کے آزاد ہوتے ہی پہلے وزیراعظم کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا۔ قاتل گرفتار نہ ہوئے۔ ملک کے 4 صوبے تھے۔ ایوب خان کے دور میں جب فاطمہ جناح امیدوار تھیں تو کراچی پر لشکر کشی کی گئی۔ حملہ آور نامعلوم تھے۔ 73ء میں آئین بنا اور اس میں شق رکھی گئی کہ زرعی ٹیکس صوبے لیں گے۔ اس لئے وڈیرے ساتھ تھے۔ بات کی جاتی ہے کہ جب مہاجر آئے تھے تو بھوکے ننگے آئے تھے۔ جب مہاجر آئے تو ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ جب الطاف حسین نے دیکھا کہ ظلم ہو رہا ہے تو ایم کیو ایم بنائی۔ سنگا پور کے کتنے صوبے ہیں۔ بھارت میں کتنے صوبے ہیں‘ نئے بنے ہیں۔ ملک کے وسائل پر سب کا حق ہے۔ صوبوں پر بات کی جاتی ہے۔ مہاجر کو گالی دینے پر واک آؤٹ کرتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ایم کیو ایم کے واک آؤٹ کے بعد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کو انہیں منانے کے لئے بھیجا اور رشید گوڈیل کی تقریر کے بعض الفاظ کارروائی سے حذف کر دیئے۔ بعد ازاں ارکان واپس آگے۔
کراچی (وقائع نگار+ ایجنسیاں) ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کے بعد سندھ اسمبلی کے اجلاس کا پہلا روز قریباً ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار تقاریر، الزام تراشیوں اور گرما گرمی کی نذر ہوگیا‘ ایم کیو ایم نے پیپلزپارٹی پر شدید تنقید کے بعد واک آؤٹ کیا۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الطاف حسین کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا، ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم نے اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر محبت کا پیغام دیا، ہم نے دوسروں کے لئے سب سے پہلے آواز بلند کی، ہم بڑی برد باری سے کام لیتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کسے کس طرح مخاطب کرنا ہے، ہم نے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے لیڈر پر نکتہ چینی میں پہل نہیں کی لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے جس کا جب دل چاہے وہ کچھ بھی کہہ دیتا ہے، ہمارے قائد کے لئے کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے  اس وقت ایم کیو ایم کے لاکھوں کارکنوں اور ہمدردوں میں شدید غم وغصہ ہے۔ الطاف حسین نے کارکنوں کے غم و غصے کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ سندھ کی حالت افسوسناک ہے، ہم حکومت کی بدعنوانی اور بدنیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ساتھ نہیں چلتے سکتے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کوئی کسی پارٹی کی قیادت پرحملہ کرے اور پھر وہ سمجھے کہ اس پرحملہ نہیں ہوگا اگر تنقید کرتے ہیں تو تنقید کا جواب بھی سنیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے کراچی اور حیدر آباد اسی طرح عزیز ہیں جس طرح لاڑکانہ اور خیرپور۔ ایسی گفتگو نہ کی جائے جس سے تلخیاں بڑھیں۔ اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے سب ہمارے بھائی ہیں۔ گزارش کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا اسے درگزر کریں اور صوبے کی بھلائی کے لئے کام کریں۔ سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ وہ قربانیاں دے کر یہاں آئے لیکن جب وہ آئے تو یہاں کے بھوکے ننگے لوگوں نے یہاں آنے والے مسلمان بھائیوں کو دل سے تسلیم کیا اپنے گھر کے دروازے اور دستر خوان کھول دیئے جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ یہاں آنے والے سندھ کے لئے نہیں پاکستان کے لئے آئے تھے لیکن ان کی جانب سے جن باتوں کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے وہ درست ہیں، صوبے میں کرپشن اور بدانتظامی ہے۔ یہ کسی ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ پورے صوبے میں یہی حال ہے، جب بھی قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو ہر شخص کھڑا ہوگا، حکمران جماعت اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ نہیں ہونا چاہیئے، صوبے میں دیہی اور شہری تقسیم کا تاثر نہیں ہونا چاہیئے صوبے کا ہر شہر اور گاؤں ہمارا ہے، حکومت پہلے صوبے کے عوام کو یقین دلائیں کہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی، سندھ کے عوام سب کچھ برداشت کرلیں گے لیکن اپنی زبان، زمین اور پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اسمبلی اجلاس کے دوران وزرا نے سوالات کا جواب دینے کے بجائے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی اور تعصب کی بنیاد پر تقاریر کا سلسلہ جاری رکھا، اب حساب نہیں حساب کتاب ہوگا اور حکومت کو ہمارے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا حکومت سندھ عوام کو دھوکہ دینے سے پہلے اپنی کارکردگی پر نظر ڈالے، پوری دنیا جانتی ہے کراچی اور حیدرآباد میں 2008 کے بعد سے ایک بھی میگا پراجیکٹ شروع نہیں ہوا اندرون سندھ برا حال ہے، اربوں روپے کے فنڈز کہاں لگائے گئے۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ ہم نے احتیاط سے بات کی‘ مزید سخت بات کرسکتے تھے‘ سندھ کے شہری مسائل حل نہیں ہورہے‘ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے سندھ حکومت میں شامل ہوئے ‘ جب بلدیاتی نظام تھا تو کراچی میں کام ہوا وسائل لوگوں پر خرچ ہوئے‘ کراچی کی 42 نشستوں میں سے صرف تین پیپلز پارٹی کے پاس ہیں‘ پی پی کے رویوں اور پالیسیوں سے اختلاف ہے کوئی دشمنی نہیں۔ قائد کے ساتھ جذباتی رشتہ ہے ان پر کوئی انگلی اٹھائے گا تو ہم برداشت نہیں کرینگے۔خواجہ اظہار الحسن نے کہا سندھ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں، وزارتوں،گاڑیوں اور مراعات کا شوق نہیں، بلدیاتی بل عوام کی امنگوں کے خلاف ہوا تو مخالفت کی جائے گی، مفاہمت کے نام پر منافقت پریقین نہیں رکھتے۔ ایم کیوایم نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا، کراچی میں تمام جماعتیں اپنا شوکرتی ہیں، پیپلزپارٹی نے بھی کیا، پیپلز پارٹی کا کراچی میں جلسہ کرنا کوئی کمال نہیں، لیاری میں کر کے دکھائیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ایم کیو ایم کے الزامات پر تعجب ہوا، آئیں مل کر جمہوریت کے فروغ کیلئے کام کریں، بلاول بھٹو زرداری نے تمام پارٹیوں کو مل کر کام کرنیکی دعوت دی ہے، پیپلزپارٹی آج بھی سب سے بڑی جماعت ہے اورآج بھی عوام کے دلوں پر راج کرتی ہے، ایم کیوایم کو پیپلز پارٹی کی دعوت قبول کرنی چاہئے تھی، واضح موقف کے باوجود ایم کیوایم کاردعمل قابل مذمت ہے۔ متحدہ کو بھرپور جواب دینا جانتے ہیں۔ سندھ کے ایک ایک انچ کی حفاظت کیلئے جان قربان کر سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ماضی کی تلخیاں بھول کرنئے سرے سے عوام کی خدمت کی بات کی تھی،افسوس کی بات ہے کہ پیار محبت اورامن کے پیغام کو سمجھا نہیں گیا، ایم کیوایم نے دعوت قبول کرنے کے بجائے ردعمل دیا، ہماری پاک افواج دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں 4 قراردادیں اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ کپاس، چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنے، سندھ میں ترجمے کا بڑا ادارہ قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام جیتنے پر مبارکباد دی گئی ہے۔ بھارتی فوج کی طرف سے شہری علاقوں پر حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو کو کامیاب جلسہ پر مبارکباد دی ہے۔ منظور وسان نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم ہماری ساتھی جماعت ہے، انہیں صبح کو غصہ آتا ہے شام کو کم ہو جاتا ہے۔ فکر نہ کریں، معاملات جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔
سندھ اسمبلی

ای پیپر دی نیشن