ایم کیو ایم کا جواب آں غزل؟

کراچی میں کھارادر ہو یا میٹھا در کوئی بھی ’’در‘‘ ہو ڈاکو حضرات نے تو اہلِ مال سے حصہ بقدرِ جثہ وصول کرنا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان کے عوام کی بھلائی کے لئے کئی سالوں سے اہم کردار ادا کرنے والے جناب عبدالستار ایدھی کے گھر ڈاکہ زنی کی واردات وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو براہِ راست چیلنج ہے۔ وہ تو شایداپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ان کے حق میں نعرے لگانے کی مشق کر رہے تھے وگرنہ ڈاکوئوں کی کیا جرات تھی؟
نیک کام دوسروں کے لئے بھی!
ڈاکہ زنی کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ ڈاکو حضرات نے جناب ایدھی کے گھر سے جو دو کروڑ روپے نقد اور 5 کلو سونا لوٹا ہے ان میں وہ نقد روپیہ اور سونا بھی شامل تھا جو کھارادر کے صرافوں نے ایدھی صاحب کی تجوری میں بطور امانت رکھوایا ہوا تھا۔ صراف یعنی سونا چاندی کا کاروبار کرنے والے۔ انہوں نے اپنا سونا چاندی اپنی دکانوں پر اس لئے نہیں رکھا ہو گا کہ ڈاکے یا چوری کا ڈر ہو گا اور بنکوں میں اس لئے نہیں رکھوایا ہو گا کہ ہر صبح بنک سے سونا چاندی کون دکان پر لائے اور شام کو کون واپس لے کر جائے؟ لیکن جناب عبدالستار ایدھی کو اس جھنجھٹ میں کیوں پھانس لیا گیا؟ اس طرح کی امانت داری سے کتنے نفلوں کا ثواب؟ خدانخواستہ عیدھی صاحب یا ان کے گھر کے کسی فرد کو کچھ ہو جاتا؟
جناب ایدھی شیر شاہ سوری کے دور میں ہوتے تو بے شک صرافوں کی اور جو صراف نہیں ہیں ان کی بھی امانتیں گھر میں رکھ کر لمبی تان کر سو جاتے لیکن کراچی میں جہاں ایک موبائل اور موٹر سائیکل چھیننے کے لئے کسی بھی معصوم اور بے گناہ انسان کو قتل کر دیا جاتا ہے ایدھی صاحب اس طرح کا خطرہ مول کیوں لیں؟ کھارادر کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔ کل وہ بحال ہو جائے گا۔ اس کی جگہ نیا ایس ایچ او بھی آ جائے گا۔ پھر امانتیں رکھوانے والے صرافوں کی شناخت پریڈ بھی ہو گی اور جناب ایدھی اور ان کے بیٹے فیصل ایدھی کے کچہریوںکے چکر بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جناب عبدالستار ایدھی نیکی کے کچھ کام دوسرے نیک لوگوں کے لئے بھی چھوڑ دیں؟
سلسلہ طاہرالقادریہ اور رقص و سرود
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’’قصور کے ملامتی صوفی بابا بلھے شاہ بھی ’’القادری‘‘ تھے اور وہ پیروں میں گھنگرو باندھ کر ناچتے بھی تھے لیکن شیخ الاسلام علامہ محمد طاہر ’’القادری‘‘ ہونے کے باوجود ’’کرکے تھیا تھیا‘‘ نہیں ناچتے بلکہ اپنی تقریروں میں مخالفوں پر گالیوں کا قہر و غضب برساتے ہوئے اعضا کی شاعری ضرور کرتے ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’علامہ القادری کوملامتی صوفی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دوسروں کی ملامت تو کرتے ہیں جو کوئی ان کی ملامت کرے  اس کی مزید ملامت کرتے ہیں‘‘ علامہ القادری نے 19 اکتوبر کو مینار پاکستان کے زیر سایہ (بقول ان کے) دس لاکھ انقلابیوں اور انقلابنوں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ ’’میں حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا مرید ہوں‘‘ علامہ القادری کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
حضرت غوث اعظمؒ کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے کہ ’’اگر بادشاہ کسی خیمے کے اندر ہو تو اس خیمے کو بادشاہ کا خیمہ کہا جاتا ہے اور اگر خیمے کے اندر گدھا ہو تو اس خیمہ کو گدھے کا خیمہ کہا جاتا ہے۔ خیمے کی اصل حیثیت اس کے مکین سے بنتی ہے‘‘ علامہ القادری جون 2014ء میں دوسری بار پاکستان میں انقلاب لانے کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے کئی بار اپنے عقیدت مند دھرنا دھاریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب یہاں دمادم مست قلندر ہو گا‘‘ 19 اکتوبر علامہ القادری اور ان کے انقلابیوں کے دھرنا دینے کا 65واں دن تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے علامہ القادری اور عمران خان کی خواہش (یا تڑی پر) استعفیٰ نہیں دیا۔ ایک اور بات کہ پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے 15 اگست کو اسلام آباد دھرنا دیتے ہی ’’دما دم مست قلندر‘‘ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے عمران خان کے دھرنے میں رش بڑھتا جا رہا تھا۔
مینار پاکستان لاہور کے جلسہ عام میں ’’سلسلہ طاہرالقادریہ‘‘ کے نوجوان لڑکوں نے علامہ القادری کی شان میں لکھے گئے تراتوں کی دھن پر دما دم مست قلندر کیا۔ دو مخصوص نیوز چینلوں پر لڑکیوں کو ہاتھوں میں مہندی لگواتے اور چہروں پر عوامی تحریک کے جھنڈے بنواتے ہوئے دکھایا گیا۔ ایک اینکر پرسن نے ناظرین کو یہ بھی بتایا کہ ’’انقلابی لڑکیوں نے ایک بھارتی فلمی گیت کا یہ مکھڑا بھی گایا کہ
’’میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں
ذرا ٹھہرو بلم مجبوریاں ہیں‘‘
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین نے (جو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان صوفی کونسل کے چیئرمین رہے ہیں) اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم علامہ طاہرالقادری کے ایجنڈے کے ساتھ اپنا ایجنڈا جاری رکھیں گے‘‘
ایم کیو ایم کا جواب آں غزل؟
پنجابی زبان کا ایک اکھان ہے کہ ’’رکھ پت رکھا پت‘‘ یعنی دوسروں کی عزت کرو اور ان سے اپنی عزت کرائو‘‘ سندھی زبان میں بھی یقیناً اسی مفہوم کا کوئی اکھان (مقولہ) ہو گا لیکن بلاول بھٹو زرداری کے کسی بزرگ یا سیاسی اتالیق نے موصوف کو نہیں بتایا پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے ’’شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کو ’’کارٹون‘‘ کہا لیکن انہوں نے ’’بھتیجا‘‘ سمجھ کر معاف کر دیا اور دنیا بھر میں اپنے کروڑوں عقیدت مندوں کو بھی منع کر دیا کہ ’’جوابی حملہ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘ لیکن جب بھتیجے بلاول نے چچا الطاف حسین کو دھمکی دی کہ ’’انکل الطاف میں لندن میں آپ کا جینا حرام کر دوں گا‘‘ تو ایم کیو ایم کے قائدین اور کارکنان کا غم و غصے کا اظہار کرنا قدرتی امر تھا۔ ایم کیو ایم کے ایک لیڈر جناب خالد مقبول صدیقی نے اپنے ساتھی قائدین کی موجودگی میں بلاول بھٹو کے خوب لتے لئے اور بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی حسب و نسب کو بھی چیلنج کر دیا اور کہا کہ ’’ذوالفقار علی بھٹو کا وارث کوئی بھٹو ہی ہو سکتا ہے زرداری نہیں‘‘
یہ بھی کہا کہ بلاول زرداری "Bambino Cinema" کا وارث تو ہو سکتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا نہیں۔ کاروبار چمکانے کے لئے بلاول زرداری کا حسب و نسب تبدیل کیا گیا ہے‘‘ اس موقع پر ’’گو زرداری گو‘‘ اور ’’گو بلاول گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔ ایم کیو ایم کا سندھ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ’’نائن زیرو‘‘ پر جشن منایا گیا۔ بلاول بھٹو نے ایک اور پنجابی اکھان کے مطابق ’’نالے چاچا تے نالے چونڈھیاں‘‘ کے مطابق انکل الطاف حسین کو کیوں چھیڑا؟ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا یا پیپلز پارٹی کی ’’کور کمیٹی یا کسے ہور کمیٹی دا؟‘‘ اگر موصوف پیپلز پارٹی کے چیئرمین نہ ہوتے اور عام نوجوان ہوتے تو پیپلز پارٹی کے پرانے لوگ کہہ سکتے تھے کہ ’’لوکو وے لوکو ایس منڈے نوں روکو!‘‘ لیکن پیپلز پارٹی میں عہدے کے لحاظ سے جناب آصف زرداری بھی اپنے بیٹے کے ماتحت ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جناب آصف زرداری کی برآمدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی وصیت کے مطابق جب جناب آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ بنا دیا تو اسے پیپلز پارٹی اور بھٹو اور زرداری خاندان کا اندرونی معاملہ سمجھ لیا گیا تھا۔ 27 دسمبر 2007ء کو بلاول بھٹو زرداری کی عمر 19 سال 3 ماہ اور 6 دن تھی۔ ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی/ مذہبی جماعت نے اعتراض نہیں کیا کہ ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ دہلی کی حکمران رضیہ سلطانہ (1239-1236) کے خلاف جب بغاوتیں شروع ہوئیں تو بٹھنڈہ کے حاکم ملکہ التونیہ نے رضیہ سلطانہ کو قید کرکے اس سے شادی کر لی تھی۔ اگر معزالدین بہرام شاہ ان دونوں میاں بیوی کو قتل کرکے خود بادشاہ نہ بن جاتا تو دہلی کا بادشاہ رضیہ سلطانہ اور ملک التونیہ کا بیٹا ’’شجاول‘‘ ہی ہوتا۔
ستمبر 2008ء میں جناب آصف علی زرداری نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی وارث کی حیثیت سے صدارتی امیدوار کی حیثیت میں کاغذات نامزدگی داخل کئے تو "Covering Candidate" کی حیثیت سے اپنی ہمشیرہ بیگم فریال تالپور کے کاغذات نامزدگی بھی داخل کرائے تھے۔ اگر جناب زرداری کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو جاتے تو جناب بھٹو کی سیاسی وراثت ’’تالپور خاندان‘‘ کو منتقل ہو جاتی۔ ان دنوں یہ خبریں بھی عام تھیں کہ ’’جناب آصف زرداری نے پاکستان میں امریکی سفیر کو تحریری درخواست دے دی ہے کہ ’’اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میری ہمشیرہ فریال تالپور کو صدر پاکستان منتخب کرا دیا جائے‘‘ اگر بھٹو قبیلے کی سرداری کی وراثت کا معاملہ ہوتاتو اور بات تھی بصورت دیگر ’’قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا‘‘ کا فارمولا کام میں لایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بلاول بھٹو زرداری کی غزل کے ردعمل میں ’’ایم کیو ایم کا جواب آں غزل‘‘ برائے بیت ہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...