سرینگر کی سڑکوں پر دس لاکھ لوگوں نے جمع ہو کر آزادی کے حق میں جلوس نکالا اور پوری وادی بھارتی کتو!واپس جائو کے نعروں سے گونج اٹھی خواتین ، بوڑھوں، بچوں نے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی چھائوں میں پوری قوت سے اپنی آواز بلند کی جواب میں بھارتی فوج اور پولیس نے گولیاں چلائیں۔ شہداء کی تعداد بڑھتی گئی لیکن دنیا کا ضمیر نہ جاگا کیونکہ یہ مشرقی تیموریا سوڈان نہ تھا۔الٹابھارتی حکومت نے کشمیر کوہر لحاظ سے بیرونی دنیا سے کاٹ دیا۔ جب سفارتی محاذ پر اہل کشمیر کی اس عظیم سیاسی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ پزیرائی حاصل نہ ہو سکی اور نہتے لوگوں کی قربانیوں سے مزار شہداء بھرنے لگا تو مجبوراً 1990 میں نوجوانوں نے بندوق اٹھا لی مجائدین نے بھارتی فوج کے اسلحہ ڈپو اور بریگیڈ ہیڈ کواٹر اڑانے شروع کئے تو فوج پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے ۔ بھارتی فوج کے فسطا ئی ہتھکنڈوں کے ریکارڈ نے ثابت کیا کہ یہ اخلاقیات کے اعتبار سے دنیا کی بدترین پست زہنیت فوج ہے جس کا کوئی ضابطہ اخلاق کوئی اصول نہیں ۔ میر واعظ مولوی فاروق شہید کے جنازے میں ان کی میت پر تین سو گولیاں چلائی گئیں۔ یہ جنگ چودہ سے بیس برس کے نوجوانوں کے علاوہ عفت مآب خواتین کے جسموں اور روحوںپر لڑی گئی۔ یہی غلیظ حرکات انہوں نے یو این مشن کے تحت سرالیون میں بھی کیں ۔ جہاں مقامی باشندوں نے انہیں پکا کر کھا لیا۔22 فروری 1991 کو کنن پوش پورہ کے ایک سکول کے احاطے میں شب برأت کی عبادت کے لے علاقہ بھر کی خواتین جمع تھیں۔ انہوں نے وضو کیا اور نماز تسبیح کے لیے کھڑی ہوئیں تو اچانک بھارت کی راجپوت رائفلز نے دھاوا بول دیا ۔ 7 سے80 برس تک کی عمر کی53 خواتین کو بد ترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔17 خواتین موقع پر شہید ہو گئیں۔33 نے سرینگر ہائی کورٹ میں اپنے بیانات قلمبند کروائے ۔ اس وقت کے ڈویژنل کمشنر وجاہت حبیب نے ان خواتین کے حق میں اپنا بیان قلمبند کروایا لیکن عدالت نے بھارتی فوج کے حق میں حکم امتناعی جاری کر دیا جو آج تک قائم ہے۔تحریک آزادی کشمیر میں کئی موڑ آئے لیکن ایک لاکھ جانیں قربان کرنے اور12 ہزار خواتین کی عصمت دری کے باوجود کوئی بھی حربہ اسے دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ کیونکہ کشمیری اپنے عظیم مقصد میں مکمل طور متحد و یکسو ہیں اور طویل المعیاد حکمت عملی کو بین الاقوامی حالات سے مربوط رکھے ہوئے ہیں۔ اب وہ دل کا پرچم ہاتھوں میں اٹھا کر پتھروں اور غلیلوں سے فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ آسیہ انداربی کی قیادت میں خواتین بھی پاکستان کے پرچم کو سلامی دے رہی ہیں۔ نوجوانوں کے موبائل میں پاکستان کا ترانہ بج رہا ہے۔ وہ سبز لباس پہنتے ہیں ۔ بچوں کی قمیض پر پاکستان کا پرچم بنا ہوتا ہے۔ برہان وانی کا لہو شعلہ جوالہ بن کر ان کی رگوں میں ابل رہا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی کیونکہ ان کے بے مثال اتحاد نے انہیں سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے۔ کر فیو کے باوجود وہ اپنے گھروں کی دیواریں توڑ کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانا اور اشیاء ضرورت پہنچا رہے ہیں ۔ ان کے کاروبار ٹھپ ہیں لیکن اس کی انہیں پروانہیں کیونکہ مقدمہء کشمیر بین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ ہے ۔ اس سے انحراف ممکن نہیں ۔ کشمیر پر اقوام متحدہ نے 18 قراردادیں منظور کی ہوئی ہیں ۔ جن پر ہندوستان پاکستان دونوں نے دستخط کئے ہوئے ہیں ۔ 69 سالوں میں کشمیر پر150 سے زائد بے نتیجہ مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ پاکستان پر اللہ مہربان ہو رہا ہے اور اس کے کرم سے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنرل راحیل اور نواز شریف کی قیادت قوم کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔وہ وقت بہت قریب ہے جب بھارت اقوام متحدہ کی زیر التواء قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر مجبور ہو گا۔ اب کے بار کشمیری بین الاقوامی سفارتی سطح پر کمزور نہیں ہیں ۔70 سال میں پہلی بار وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی طاقتور اور با صلاحیت ٹیم کے ہمراہ مقدمہ کشمیر پر پوری دنیا کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔وہ خود اور ان کے ساتھی دنیا کی ہر قوت کو کشمیر کا آئینہ دکھا رہے ہیںاور اقوام متحدہ کے ایوان برہان وانی شہید کے ذکر سے گونج رہے ہیں ۔ سول حکومت اور فوجی قیادت کی مکمل ہم آہنگی نے بڑھکیں مارنے اور دھونس جمانے والوں کی جھاگ بٹھا دی ہے۔ نواز شریف کے بچھائے ہوئے موٹر وے پر پاک فصائیہ کی حیران کن اور منفرد قسم کی مشقوں نے امریکہ اور یورپ کے مقتدر حلقوں میں ارتعاش پیدا کیا ہوا ہے اور مودی جی اور اجیت کمار عوامی روسٹرم سے اتر کر بندکمروں میں میٹنگ کر رہے ہیں۔اوپر سے اوڑی حملہ بے شمار داستانیں رقم کر گیا ہے۔ کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وہی بارہ مولا ہے جہاں 1931 میں آزادی کے لیے خواتین کے جلوس پر ڈوگرہ فوج نے فائرنگ کی تھی۔ اس کی قیادت32 سالہ ساجدہ بانو کر رہی تھیں۔ وہ امید سے تھیں گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا جسم چھلنی کر دیا تھا اور مزار شہداء میں دو قبروں کا اضافہ ہوا تھا ایک ساجدہ بانو اور دوسری ننھے شہید کی قبر جس کا کوئی نام کوئی عمر نہ تھی۔ اسی اوڑی حملے میں 2013 میں بھارتی فوج نے کھیلتے ہوئے بچوں پر فائرنگ کر کے انہیں شہید کیا ۔ ابھی چند روز قبل بارہ مولا کے شہید نوجوان وسیم احمد کو کرفیو کے باوجود ہزاروں لوگوں نے پاکستانی پرچم میں دفن کیا۔1991 میں بارہ مولا سے دریائے جہلم میں بہہ کر چکوٹھی آزاد کشمیر کے لوگوں کو ملنے والی سترہ سالہ کشمیری لڑکی کی لاش آج بھی انصاف کے ایوانوں سے فریاد کناں ہے جس کے پیٹ پر ہزاروں پیپر پنوں سے لفظ " پاکستان "کھدا ہوا تھا۔ اس لیے بات اب سیاسی اور فوجی ڈراموں سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔ سچ دیواروں پر، بادلوں پر ، فضائوں میں ، وادیوں میں پانی پر لکھا جا رہا ہے۔ نریندرمودی اور ان کے ہمنوا لاکھ تاویلیں نکالیں کشمیریوں کی منزل عشق ، ان کا پیار ا پاکستان جنرل راحیل شریف اور ان کی فوج کی بے مثال قیادت کی طرح ناقابل تسخیر ہے اور2016 کی پاکستانی قوم کو یقین ہے کہ دھیمے لہجے کا نواز شریف اپنے آہنی عزم کے ساتھ پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا نے کے بعد اقتصادی راہداری کے ذریعہ اس خطے کی کایا پلٹنے کے ساتھ مسلم امہ کے اتحاد اور کشمیر کی آزادی کی منزل حاصل کر کے دم لے گا۔
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
(ختم شد)