اسلام آباد گھیراﺅ نامنظور

عجیب تماشا ہے کہ پاکستان کے لئے ایثار اور قربانی کی روایات کو ہمیشہ کاروباری طبقہ تابندہ رکھتا ہے تاکہ عوام کسی مشکل میں کبھی مایوس نہ ہوں اور حکومت وسائل کی کمی کے ہاتھوں مجبور نہ ہو، سیاست دان اقتدار کی منزل قریب کرنے کیلئے کنٹینر کھڑے کر کے شہر وں آبادیوں اورمارکیٹوں کے راستے بند کرنے میں خود مختار بن جاتے ہیں۔ معیشت کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں سے قبل کاروباری طبقہ سے مشاورت یا اس سلسلے میں انکی کس مثبت تجویز کو تسلیم کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگلے روز ایک سیاست دان کی طرف سے ملک بھر سے اپنے ورکرز کو اکٹھا کر کے اسی آمرانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے محرم کے بعد اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ تعمیر وطن میں بزنس کمیونٹی کا کردار عملی اور نمایاں ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو حکومتی مشینری چلانے کیلئے وسائل نہ تھے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی آواز پر کاروباری طبقہ بڑوں نے بساط سے بڑھ کر وسائل قائداعظم کے قدموں میں نچھاور کردئیے۔ دشمن نے 1965ءاور 1971 کی جنگیں مسلط کیں تو پاکستان کے کاروباری طبقہ نے ہم وطنوں کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جب بھی سیلاب زلزلہ آیا تو ایوان ہائے صنعت و تجارت اور مارکیٹ ایسوسی ایشنوں نے اپنے دفاتر کو ریلیف کیمپوں میں تبدیل کردیا۔ جبکہ سیاست دانوں نے چند تقریں اور دلکش نعرے کنٹری بیوٹ کئے۔ نری سیاست کی بنیاد پر عوام کو روزگار اور خوشحالی کسی طور میسر نہیں آسکتی۔ اس کےلئے کاروبار چلانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا پڑتے ہیں۔ اہل سیاست نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے کاروباری ماحول خراب کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ نواز شریف حکومت آنے سے اصلاح احوال اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے آثار نمایاں ہوئے۔ مرکز اور پنجاب میں حکومتیں تعمیر و ترقی کیلئے سنجیدگی سے مصروف عمل ہوگئیں۔ مسلسل ملاقاتوں اور کاوشوں سے دوست ملک چین گوادر بندرگاہ سے کاشغر تک اقتصادی راہداری منصوبوں کی نہ صرف تعمیر کیلئے تیار ہوا بلکہ اس نے 46 ارب ڈالر کی گرانقدر سرمایہ کاری بھی فراہم کردی۔ عین اس موقع پر دو سیاست دانوں نے اسلام آباد کنٹینر دھرنے کا گند ڈالے رکھا۔ معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب کئی ماہ تک تاخیر کا شکار ہوئی۔ آخر کار ناکام و نامراد دھرنے ختم کرنا پڑے لیکن کاروباری ماحول خراب کرنے کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔ رائیونڈ روڈ پر وزیراعظم پاکستان کے گھر کے سامنے کنٹینروں کی قطار کھڑی کر کے اس وقت احتجاجی سیاست کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی جب بھارت پاکستان کے پانی روکنے اور براہ راست پاکستان پر جارحیت کیلئے بڑھکیں مار رہا تھا۔ ہندو باز نہیں آیا اور ایک رات اس نے دو جوان شہید کردئیے۔ اگرچہ پاک فوج نے جوابی کارروائی میں آٹھ ہندوستانی فوجی ہلاک کردئیے اور چوکیاں خاکستر کردیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست دان کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ جنگ کے ماحول میں ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو اکٹھا کر کے اپنے ملک کے وزیراعظم کے گھر کے سامنے تماشا رچاتے۔ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اعلان یہ کیا گیا کہ محرم کے بعد اسلام آباد بند کردیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی زمیندار اپنے کھیتوں میں گزرنے والے پانی بند کرنے کی دھمکی دے پہلی بات سوچنے کی یہ ہے کہ اسلام آباد کسی سیاست دان کا زرخرید نہیں۔ سیاست دانوں کے پہلے دھرنے میں اسلام آباد کے تاجروں نے بار بار احتجاج کیا تھا کہ ان کے کاروبار شدید مندی کا شکار ہوچکے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سابقہ رد عمل کے پیش نظر اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کی جاتی لیکن اسلام آباد کو بند کرنے کے فیصلہ سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاستدان کے نزدیک کاروباری طبقہ بکریوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس بار ضرور رد عمل سامنے آگے گا۔ اسلام آباد چیمبر ہے۔ راولپنڈی چیمبر ہے۔ تاجروں کی متعدد انجمنیں ہیں۔ کاروباری نقصانات کے علاوہ اسلام آباد پاکستان کا دارلحکومت ہے۔ پاکستان کی عزت و عظمت اور توقیر کا نشان ہے۔ فیڈریشن پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ملک بھر کے ایوانہائے صنعت و تجارت سیاست دانوں کے متوقع اقدام کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...