ایک دن قبل ہی میں یہ پڑھ رہی تھی کہ دسمبر تا فروری گھریلو صارفین کے لیے رات 10 سے صبح 5 بجے تک گیس موجود نہیں ہے۔ گرمیاں شروع ہونے سے پہلے کہا گیا تھا کہ بجلی عوام کی ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے الیکشن کمیشن کی وارننگ کے بعد مسلم لیگ ”ن“ کے انتخابات کروانے کے مرحلے میں کچھ اور باتیں کی ہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ وہ اپنے ملک کی عوام کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہیں؟ حالانکہ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ حکمرانوں اور عوام کے لائف سٹائل میں اتنا فرق موجود ہے کہ زندگی گزارنے کے مرحلے میں اور دن رات بسر کرنے کی مشقت کے دوران حکمران یا ان کے خاندان کے لوگ نہیں جانتے کہ بجلی ‘پانی‘ گیس اور مہنگائی سے پستا ہُوا ایک عام آدمی زندگی کیسے گزارتا ہے؟ وزیراعظم نوازشریف کو اپنے موجودہ حکمرانی کے دور میں دیکھا گیا ہے کہ وہ دلجوئی کرنا بھی گواراہ نہیں کرتے، کم ازکم انہیں عوام کی اس قدر مشکلات میں ان کے لیے تسلی کے الفاظ تو بولنا چاہئیں لیکن وہ مسلسل اپنی کامیابیوں کا ذکر کرکے لوگوں کی محرومیوں سے نظریں چرا تے رہتے ہیں اور بظاہر لش پش نظر آتی اس ترقی کا ذکر کرتے ہیں جس کا عوام کی زندگی کے مسائل کے حل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ مرتضے برلاس کا شعر ہے کہ ....
ستر پوشی کو یہ اجرک ہے بڑے کام کی شے
زیر جامہ بھی ضروری ہے، بنایا جائے
محترم وزیراعظم مزاحیہ شاعری اور مزاح سے اُلفت رکھتے ہیں اگر برادر خورد وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف سے اس شعر کا مطلب پوچھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ بنیادی ضروریات کا زیر جامہ کیا ہوتا ہے اور بنیادی ضروریات سے محروم بھوکے ننگے عوام کو کنکریٹ کے شہر اور اورینج ٹرین جیسے خطیر رقوم والے منصوبے کچھ نہیں دے رہے ہیں جبکہ گلی محلوں میں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ بڑے منصوبوں پر بڑا کمیشن الگ ہوتا ہے اور پھر انہیں گروی رکھ کر قرض لینے کا ایک اور ذریعہ بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں عوام کے دلوں میں عجیب سی بے چینی پائی جاتی ہے اور اپوزیشن لیڈر عمران خان ”دھرنے“ کی تیاریوں میں ہیں اور دو طرح کا طبقہ ان کے ساتھ ہے ایک طرح کا وہ جو اس ملک کا تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ہے اور جن کا کسی طرح کی ”دکانداری“ سے کوئی تعلق نہیں یعنی وہ کاروباری افراد نہیں ہیں اور دوسرا طبقہ نوجوانوں کا ہے اور یہ لوگ مل ملا کر تیار ہو چکے ہیں کہ ....
لوگ بھوکے ہیں تو کیا رقص تو کر سکتے ہیں
فاقہ مستی کا سہی، جشن منایا جائے
عوام کے ایک بڑے طبقے کی بے چینی کے برعکس وزیراعظم نوازشریف پرسکون اور پُراعتماد ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو وزیر داخلہ چوہدری نثار حکومت اور فوج کے درمیان پُل کا کردار ادا کرکے حکومت کے مسئلے کم کر دیتے ہیں اور دوسری وجہ انفارمیشن منسٹر پرویز رشید اور ان جیسے سرجن ہیں جو نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ ایک لطیفہ ہے کہتے ہیں کہ بادشاہ سلامت ایک ہسپتال کے دورے پر گئے آپریشن تھیٹر میں سرجن مریض کی ٹانگ کاٹ رہا تھا بادشاہ نے سرجن کے کام کو دیکھ کر کہا .... شاباش.... تو سرجن نے جُھک کر کہا .... کیا حضور کی منشا یہ ہے کہ میں دوسری ٹانگ بھی کاٹ دوں .... اور وزیراعظم کے سکون اور اطمینان کی تیسری وجہ وہ کاروباری طبقہ ہے جس کا بجلی‘ گیس اور پانی کے بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کے گھروں کی منڈیروں پر چراغ بھی روشن ہوتے ہیں اور ان کے گھروں کے باورچی خانوں میں کئی کئی اشتہا انگیز پکوان بھی پکتے رہتے ہیں اور باقی رہے عوام تو جب انڈسٹری بڑھتی چلی جائے گی تو کافی ساری تعداد تو ان کے ملازمین کی بھی ہوگی یعنی آقا اور غلام جیسے رشتوں میں اضافے کا رحجان بھی ملے گا۔ عمران کے دھرنے سے نمٹنے کے لیے پرویز رشید کی بیان دیتے ہوئے مسکان دیکھ کر اندازہ ہُوا تھا کہ اندر اندر کوئی کچھڑی پکائی جا چکی ہے کیونکہ یہ مسکان معصومیت لیے ہوئے نہیں تھی، اندازہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کوگرفتار کر لیا جائے گا۔ عمران خان نے بطور کرکٹر زندگی گزاری پھر فلاحی ادارہ شوکت خانم ہسپتال قائم کیا اب یہاںعمران کی ذاتی زندگی کی بات آئے تو اگر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے نجی زندگی بحث میں نہیں لائی جاتی تو عمران خان کی بھی نہیں لانی چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مجید نظامی کی یادداشتوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کو ایک مرتبہ نئی شادی کے بندھن میں بندھنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بات میں ”چچا“ ہونے کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں مگر انہوں نے وہی کیا جو ان کے دل نے ٹھان لی تھی۔ لہٰذا وہ شہباز شریف ہوں یا عمران خان ان کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں بات نہیں ہونا چاہیے البتہ عمران خان کو یہ پتے کی بات میاں شہباز شریف سے سیکھنا چاہیے کہ اندر ہی اندر فیصلے کیا کریں اور ہر بات سب کے سامنے نہ کر دیا کریں اور عمران خان کی زندگی میں ایک بات کی کمی بھی ہے کہ میرے خیال میں ابھی تک انہوں نے جیل نہیں کاٹی.... پاکستان کی تاریخ میں ہر بڑا لیڈر جیل کاٹ کر مزید بڑا لیڈر بن جاتا ہے .... عمران خان کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو تحریک انصاف والوں کو مبارک ہو کہ اب ان کی پارٹی کے لیڈر صحیح سیاسی لیڈر بنتے جائیں گے لیکن چونکہ ابھی حکومت اپنی حکمت عملی پر خاموش ہے لہٰذا وقت بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے البتہ حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام اب اس طرح کے نہیں رہے کہ جنہیں ایک دفعہ کسی نے ایک لڑکے سے پوچھا ”برنارڈ شا کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ اس نے کہا .... ضلع سرگودھا کے ایک مشہور گدی نشین کا نام برنارڈ شاہ ہے!