"نہ بیند مُدّعی جَزخوشیتن را"

تاخیرسے سہی ۔ "او آئی سی پارلیمانی فورم "نے بھارتی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے "اقوام متحدہ "سے مقبوضہ وادی میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اول تو مسلم کمیونٹی کے معاملہ میں اقوام متحدہ کا کردار روزِ اول سے دوہرے معیار ۔ دوغلے پن کا شکار ہے ۔ بالغرض مشن بھیج دیتے ہیں تو تب بھی معجزہ برپا ہونے کی توقع نہیں کیونکہ انڈیا خوابوں کی سرزمین ہے ۔ قیادت دن رات اپنے ہی بُنے خوابوں ، خیالوں کے تکبر ۔غرور میں مگن رہتی ہے ۔ جھوٹ کے ماحول میں ۔ جھوٹ کی زبان بولنے والوں پر کیا اثر ہوگا ۔
نہ بیند مُدّعی جَزخوشیتن را
کہ دارد پردہَ پندار درپیش
ترجمعہ: ڈینگیں مارنے والے کو اپنے سوائے کچھ دِکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ اُسکے سامنے تو غرور کا پردہ ہے ۔
دو دن پہلے" مودی" نے کہا کہ بھارتی فوج بڑی طاقتوں سے کم تر نہیں ۔ ہر جگہ ہماری فوج کے تذکرے ہورہے ہیں ۔ 100"فیصد سچائی لیے ہوئے الفاظ"۔ واقعی بھارتی فوج بڑی افواج کے ہم پلہ ہے ۔ آج دنیا کا کوئی بھی خطہ پر سکون نہیں ۔ امن سے محروم اور بارود کی بُو میں سسک رہا ہے ۔ دنیا کا غالب حصہ خانہ جنگی کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ دن ۔ رات کی تمیز کیے بنا بمباری ۔ فائرنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شام‘ عراق‘ افغانستان سینکڑوں مثالیں ۔ یہ سب دنیا کی بڑی افواج کی کمانڈ میں ہو رہا ہے ۔ یہی حال "مقبوضہ وادی" کا ہے ۔ کشت و خون کا دریا بہانے میں واقعی بھارتی فوج بڑی افواج کے ہم پلہ ہے ۔ عملی کارکردگی کیا ہے ؟ حربی صلاحیت ۔ تنظیمی اہلیت کتنی ہے ؟ جواب" صفر" ۔ ہم نہیں کہہ رہے۔ انڈیا کے اندر سے سوال اُٹھ رہے ہیں ۔ "بھارتی شہریوں" نے وزیر دفاع اور آرمی چیف کے نام خطوط لکھ کر فوج کی ناکامیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ بڑی طاقت کے زعم کو اگر اُ ن کی نظر سے دیکھیں تو مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوجی تعینات ہیں ۔ پولیس اِسکے علاوہ ہے مگر دونوں تمام تر جنگی ہتھیاروں۔ تشدد کے بدترین حربوں کے باوجود آزادی کی آواز کو خاموش کرنے میں ناکام ہیں ۔
"کشمیریوں کی جدوجہد آزادی حق پر مبنی ہے "۔ یہ الفاظ کِسی پاکستانی یا یورپین باشندے نے نہیں بلکہ حقوقِ انسانی کے معروف علمبردار ایک بھارتی شہری"گوتم نو لکھا "نے کہے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے ہم پلہ کی خوفزدگی کا یہ عالم ہے کہ بدحواسی میں153"کبوتر "(ہمیشہ کی طرح) جاسوسی کے الزام میں پکڑ لیے ۔ قصہ اِسی پر ختم نہیں ہوتا۔ طاقت کا یہ عالم ہے کہ" مشکوک غبارے "کی اطلاع پر ڈی ایس پی نے بھاری نفری (اکیلا نہیں ) کے ساتھ کھیت پر چھاپہ مارکر" غبارے "کو پکڑ لیا ۔ زندہ حقائق کو انڈیا سے زیادہ کون جانتا ہے۔ خود اعلیٰ حکام نے بھارتی پالیسیوں کے رد عمل میں کشمیریوں کی بڑی تعداد کے ہتھیار اُٹھانے کا اعتراف کرتے ہوئے آنیوالے دنوں میں مزید پر تشدد واقعات کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے کشیدگی میں کمی اور اپنی معیشت کی ترقی پر توجہ دینا چاہتے ہیں ۔" مودی "اِس سلسلہ میں ٹھوس پالیسی بنا رہے ہیں ۔ یہ دعویٰ اُسوقت مشکوک ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ "روس "سے اربوں ڈالرز مالیت کے مہلک ترین طیارہ شکن میزائل نظام خریدنے کے معاہدہ پر دستخط کر رہے ہیں ۔ کشیدگی ختم کرنے کے بیانات زخم پر مرہم رکھنے میں ناکام رہیں گے جب تک الزام تراشی کی روش بند نہیں ہو جاتی ۔ نہ صرف بلاناغہ سرحدی اشتعال انگیزی جاری ہے بلکہ کوئی نہ کوئی نیا شوشہ ضرور چھوڑتا ہے وہی روایتی وطیرہ ۔ مقبوضہ وادی میں 250" افراد" کے داخلے کا الزام ۔وہ ملک اپنی معیشت کو کیسے بہتر بنا سکتا ہے جس کی قیادت مغرور ہو کر "سرجیکل خودکشی "پر تُلی ہو ۔ آمدن کا غالب حصہ ہتھیار خریدنے پر صرف کرتی ہو۔ کیا یہ خبر پڑھ کر آپکو معلوم ہوگا کہ واقعی" وہ "کشیدگی میں کمی کرنا چاہ رہے ہیں ۔ "او ۔ آئی ۔ سی" جس اقوام متحدہ سے مقبوضہ وادی میں مشن بھیجنے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ اُسی ادارے نے بھارت مخالفت پر ©"ڈیمز "بنانے کیلئے پاکستان کو 35" ملین ڈالرز "کا اجراءروک دیا ۔ پہلے بھی اور آ ج بھی ہم یقینا سفارتی تنہائی کا شکار ہیں مگر اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں میں اِکادُکا واقعات ہوئے مگر عقلمندی ہوگی کہ" میڈیائی دانشور" تنہائی کے ڈھول کو زیادہ زور سے مت پیٹیں ۔ "ہمسائے" کی مخالفت کے باوجود پاکستان کیلئے "کلائمیٹ فنڈ " کی منظوری بہت بڑی نہ سہی مگر نا موافق ہوا میں چھوٹی سی خوش کُن تبدیلی کی خبر ضرور ہے ۔ روس۔ انڈیا کے سیاسی و فوجی روابط کی تاریخ 72" سال "پُرانی ہے ۔ اب اِس کتاب کے بھی چند صفحات کی تحریر تبدیل ہونے کی راہ پر چل پڑی ہے ۔ "برکس اعلامیہ" میں" روس" نے بھارتی موقف کو مسترد کر کے رونمائی کردی ۔ "چین" واحد ملک ہے جو ہر مشکل گھڑی ۔ دشوار مرحلے میں ہمیشہ پاکستان کو" ریسکیو" کرتا ہے ۔ چین نے دوبارہ سے ٹھوس الفاظ کے ذریعہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرنے کا پیغام دیتے ہوئے قرار دیا کہ "بھارت متاثرہ ہے تو پاکستان بھی متاثرہ ملک ہے" ۔یہ ردعمل ہے اُس شاطر ذہنیت کا ۔ الزام تراشی کے کنگ کا ۔ جب" مودی "نے" پڑوسی ملک" کو دہشت گردی کا مرکز کہتے ہوئے "برکس ممالک" سے کاروائی کا مطالبہ کیا ۔ مگر انڈیا کو دن میں تارے نظر آگئے ۔" برکس" ٹوٹ گئیں جب چین نے ٹریڈ سیشن میں شرکت سے انکار کیا اور "نیو کلیئر سپلائزر گروپ" میں اسکی شمولیت کی پھر سے مخالفت کردی۔ مضبوط شراکت داری کی ڈور میں بندھا ہوا ہے ۔ دوستی اور شراکت داری تو ہماری بھی" امریکہ "کے ساتھ اتنی ہی پُرانی ہے مگر" امریکہ "۔ مفادات ۔ دوستی کے معانی اپنی مرضی کی تشریح ، تفسیر کے مطابق ادلتا ، بدلتا رہتا ہے ۔ہم تو زخم خوردہ ہیں ہی ۔ پر اب تو گردن تک نمک حلالی کرنیوالے" حامد کرزئی "نے بھی سچ اُگل دیا کہ امریکہ ۔ افغانستان میں ڈبل گیم کھیل رہا ہے ۔ یہی معاملہ پاکستان ۔ انڈیا کے مابین "امریکہ" کا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...