میں گزشتہ چند دنوں سے ایک عجیب سے مخمصے میں گرفتار ہوں۔ جب ملک کے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے ملک سے باہر کامیاب دوروں کا احوال پڑھتا ہوں اور اندرون ملک مختلف تقریبات میں میاں صاحب کے بیانات اور اعلانات سنتا ہوں تو دل کو قدرے تسکین ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پا کستا ن ہر شعبہ میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ گزشتہ روز کئی برسوں کے بعد اسلام آباد کے عظیم کنونشن ہال میں مسلم لیگ (ن) کے ملک بھر سے آئے ہوئے کارکنوں کے نعروں کی گونج میں وزیراعظم سے ان کی مثالی اور گہری عقیدت دیدنی تھی۔ تین بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اگلے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے میاں محمد نواز شریف کو ایک بار پھر بلا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کر لیا ہے۔ میری طرف سے میاں صاحب کو صد ہزار مبارکباد۔ موجودہ دور میں سیاست کے میدان میں یہ ایک بے مثال ایسی کامیابی ہے جس کی دنیا بھر میں ڈھونڈنے سے مثال نہیں ملتی۔ یہ امر پارٹی کے اندر اتحاد اور یکجہتی کا واضح ثبوت ہے۔ اس سے بڑا ثبوت کارکنوں کی اپنی وفاقی اور صوبائی قیادت پر اعتماد اور کیا ہو گا کہ دوسرے روز لاہور میں مسلم لیگ نون کے اپنی وحدت فکر اور تنظیم پر اعتماد کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے جناب محمد شہباز شریف کو پارٹی کا صوبائی صدر بلا مقابلہ منتخب کرتے ہوئے دیگر تمام مختلف سطح کے قائدین کا اسی طرح انتخاب کر لیا جس طرح ایک روز قبل اسلام آباد میں ہوا تھا۔ جناب شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب کو بھی میری طرف سے بہت بہت مبارکباد قبول ہو۔ یہ ہے عوام اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا اپنی قیادت پر بھرپور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت۔لیکن کیا کروں کہ جب میں اخبارات میں حالات حاضرہ کے مختلف تجزیئے پڑھتا ہوں اور ٹی وی کے مختلف چینلز پر عوام کی نبض پر ہر دم انگلیاں رکھنے والے نقادوں کے تبصرے سامنے آتے ہیں تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنما اور ان کے بیانات و احتجاجات کا احوال کچھ اور ہی نقشہ پیش کرتا ہے۔ ایک سیاسی پارٹی جس نے 2013ءکے انتخابات کے بعد ایک صوبہ میں اپنی حکومت بنا رکھی ہے اور ملک بھر میں مختلف ضمنی انتخابات کے نتیجہ میں تواتر سے دوسرے نمبر پر آ رہی ہے۔ آج کل دیگر صوبوں اور مرکز میں حزب اختلاف کا نہ صرف دعوی کرتی ہے بلکہ کوئی مانے نہ مانے یہ جماعت اپنے ہر احتجاجی جلسے یا ریلی میں عوام کی معقول تعداد جمع کرنے کا ملک کے تمام بڑے شہروں میں جن میں صوبہ پنجاب بھی شامل ہے مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں اس سیاسی جماعت نے لاہور کے قریب رائیونڈ کے مقام پر ایک ایسا احتجاج کیا جس کے بارے میں ان کا اعلان ہے کہ رائیونڈ کا اجتماع 2 نومبر کو اسلام آباد میں اعلان شدہ احتجاجی اجتماع کا محض ایک ریہرسل تھا۔ رائیونڈ اور 2 نومبر کے اسلام آباد میں متوقع احتجاج میں فرق صرف اتنا ہے کہ رائیونڈ کے اجتماع نے آدھی رات کے بعد اپنے اپنے گھروں کو واپسی کا راستہ اختیار کیا تھا جبکہ اب 2 نومبر کو اسلام آباد میں جیسا اجتماع بھی ہو گا اس کا واپس گھروں کو جانے کی بجائے اسلام آباد میں ڈیرا ڈالنے کا ارادہ ہے۔ جب تک ان کے مطالبات پورے نہ ہوں مطالبات کیا ہیں۔-1وزیراعظم پانامہ لیکس کیس میں نا اہل ہو چکے ہیں لہذا ا خلا قی طو ر پر استعفیٰ دیں۔-2بصورت دیگر و ہ پانامہ لیکس سے متعلقہ الزامات کی تحقیقات اور احتساب کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں۔-3جب تک ایسا نہیں ہوتا 2 نومبر کو احتجاجی اجتماع اسلام آباد میں ہی خیمہ زن رہے گا۔
اگر احتجاج کی یہ 2 نومبر والی دھمکیاں صرف ایک ہی سیاسی جماعت تک محدود ہوتیں تو حکومت کو کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے طویل دھرنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرکے بخیرو خوبی سرخرو ہوچکی ہے۔ لیکن بظاہر پراعتماد نظر آنے کے باوجود اوپر سے لیکر نیچے تک ایوان ا قتدار میں ابھی سے پریشانی کے آثار اور جوابی کارروائی کی ہر سطح پر تیاریاں کچھ اچھا شگون نظر نہیں آتا۔میں لاکھ چپ رہوں صرف ایک سیاسی جماعت ہی نہیں جو اپنے آپ کو اپوزیشن کے رول میں عوام کے سامنے سڑکوں پر لانے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ سرکاری طور پر سید خورشید شاہ کی اپوزیشن پارٹی بھی اپنے نوجوان چیئرمین کے زیر قیادت موجودہ ماحول کو اپنا لوہا منوانے کے لئے نادر موقع تصور کرتی ہے۔ انہوں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ اگر ان کے چند مطالبات جن میں ایک 27 اکتوبر تک مستقل وزیر خارجہ مقرر کرنا بھی ہے۔ پورے نہ کئے گئے تو یہ جماعت جو حال ہی میں 2013ءتک برسر اقتدار تھی اپنے جیالوں کے لاو¿ لشکر کے ساتھ حکومت کے خلاف اپنے تمام تیر و کمان استعمال میں لائے گی۔ بعض تجزیہ کاروں نے یہ کہہ کر سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا کہ اس سابق حکمران پارٹی کے سابق صدر جو کہ حکومت کے خلاف اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیکر ازراہِ احتیاط ملک سے باہر تشریف لے گئے تھے اور ابھی تک بیرون ملک بیٹھے اپنی پارٹی کی بذریعہ ریموٹ کنٹرول قیادت فرما رہے ہیں۔ وہ درحقیقت موجودہ سٹیٹس کو کے برقرار رہنے میں ہی اپنی اور اپنے خاندان اور پارٹی کے لئے سود مند سمجھتے ہیں لیکن کبھی کبھی اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے اپنی ترکش سے کوئی نہ کوئی مصنوعی زہر میں ڈوبا ہوا تیر پھینکتے رہتے ہیں لیکن میری پریشانی کا باعث مندرجہ بالا خدشات میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ ہاں ایک اندیشہ ہائے گوناں گوں ضرور ہے جس نے میری راتوں کی نیند کو اچاٹ کر رکھا ہے ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں اور طرح طرح کے ڈراﺅنے خوابوں سے گھبرا جاتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ کہنے کو تو میں اپنی حقیر فقیر حیثیت میں اس دعا میں سربسجود ہوں کہ ملک کی سلامتی کو اس نازک لمحہ پر جو اندرونی و بیرونی خطرات منڈلا رہے ہیں اور ملک و قوم کو کسی نا قابل بیان سمندر کے طوفان کی طرف دھکیل رہے ہیں‘ ان سے محفوظ رہیں۔
اللہ نہ کرے!
Oct 21, 2016