میڈیا سے کیا کہیں گے‘ عمران کے مشورے‘ کہہ دیں وزیراعظم کو طلب کیا گیا: شاہ محمود

Oct 21, 2016

اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے کیس کی سماعت 9بجکر 55منٹ پر شروع کی اس موقع پر کورٹ روم نمبر ایک میں غیر معمولی رش کے باعث لوگوں نے کھڑے ہوکر کیس سنا جبکہ غیر معیاری سائونڈ سسٹم کے باعث کسی جگہ آواز صاف اور کسی جگہ صرف مکھیوں کی بھن بھن کی طرح تھی لوگ سننے کے باوجود سمجھنے کے لئے ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کیا ہوا کیاکہا؟۔*عدالت نے خودکو سیاسی تنازعات سے الگ رکھتے ہوئے ہوئے دو نومبر کے دھرنے پر پابندی کے حوالے سے درخواستیںخارج کردیں۔ *کیس کی سماعت کے دران حکمران پارٹی کے لوگ ، ٹی آئی سے دور دیوار کے ساتھ لگی سیٹوں بیٹھے رہے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کورٹ روم کی فرنٹ لائن میں بیٹھے۔ان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین،اسحاق خاکوانی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق میاں اسلم جبکہ ن لیگ کے حکومتی وزرا خواجہ آصف ،سعد رفیق ، دانیال عزیز، طارق فضل چوہدری، محمد زبیر شامل تھے۔*عمران خان نے کمرہ عدالت میں تین بارنشستیں تبدیل کیں،پہلے آتے ہی شیخ رشید احمد اور جہانگیرترین کے درمیان براجمان ہوئے تو سورج کی روشنی انہیں تنگ کرنے لگی جس کے باعث جہانگیر ترین کی نشست پر بیٹھے اور بعد ازاں شیخ رشید کو اٹھاکر ان کی نشست بیٹھے اور شیخ صاحب کو اپنی خالی کردہ نشست پر بٹھایا، وزیر اعظم سمیت فریقین کو نوٹسز پر عمران خان پہلے خوش جبکہ دو ہفتوں بعد یعنی 2نومبر دھرنے کے بعد کیس کی سماعت ہونے پر کچھ افسردہ نظر آئے۔* حکومتی رہنما اور اور پی ٹی آئی کے عمران خان کیس کی سماعت کے بعد الگ الگ سپریم کورٹ کی راہداریوں میںوکلاء و دیگر سے مشاورت کرتے رہے کہ میڈیا کے سامنے کون بولے گا اور کیامؤقف ہونا چاہئے کیا کہا جائے اور کیا نہ کہا جائے۔ * مشاورت کے بعد حکمت عملی ا ختیار کی گئی ۔ مسلم لیگ (ن) نے طے کیا کہ وزیراعظم کا دفاع کیا جائے گا، پی ٹی آئی نے طے کیا کہ دھرنے کے مؤقف پر قائم رہنا ہے ۔فریق وکلاء نے اپنے اپنے موکلوں کو تاکید کی کہ عدالت کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ۔*عمران خان جہانگیر ترین کے ہمراہ ٹھیک 9.25 پر سپریم کورٹ کے گیٹ پر آئے اور 9.30پر کورٹ شروع ہونے پر عدالت پہنچ گئے۔*پانامہ لیکس سماعت کے موقع پر کو رٹ روم نمبر ایک بڑی تعداد میں اینکرزاور صحافی موجود تھے کیس کی رپورٹنگ کے دوران ٹی وی رپورٹرز کی موبائل بیٹریاں ختم ہوگئیں*پانامہ لیکس کی سماعت کے موقع پر سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا۔ پولیس کی اضافی نفری، ریجرز ، کمانڈوز، ایلیٹ فورس تعینات کی گئیں ، بکتر بند گاڑیاں، ٹریفک پولیس تعینات کی گئی جبکہ اس دوران پورے ریڈژون میں ریڈ الرٹ رہا۔ نجی ٹی وی اور بی بی سی کے مطابق عمران نے حامدخان‘ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین اور دیگر رہنمائوں سے مشاورت کی۔ عمران خان نے اسلام آباد دھرنے سے متعلق سوال پر کہا کہ صحافی کہیں گے اب آپ کیا کریں گے؟ ہم کہیں گے وہ علیحدہ ہے اور احتجاج علیحدہ ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ احتجاج ہمارا آئینی و قانونی حق ہے۔ شاہ محمود قریشی نے عمران خان سے کہاکہ بس کہہ دیں کہ وزیراعظم کو نوٹس جاری نہیں ہوا بلکہ طلب کیاگیا ہے۔ عمران نے حامد خان سے کہا کہ کیا قومی مفاد میںروزانہ سماعت کا مطالبہ کر سکتے ہیں جس پر حامد خان نے کہا کہ اس مرحلے پر روزانہ سماعت کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ لارجر بنچ بن جائے تو روزانہ سماعت کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ پہلے دن میں وزیراعظم کی جانب سے جواب آنے دیں۔ عمران خان حامد خان کا جواب سن کر مسکرا دیئے۔ ایک صحافی نے عمران سے سوال کیا کہ کیا آپ مطمئن ہیں تو عمران نے کہا بہت مطمئن ہوں۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر عدالتی فیصلہ اتنی جلدی نہیں آئے گا جتنی امید پاکستان تحریک انصاف نے لگا رکھی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا تھا کہ حکومت ہرممکن کوشش کرے گی کہ سپریم کورٹ میں معاملے کو طول دیا جائے۔ اس بات کا امکان ہے کہ حکومت اگلی سماعت پر ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوال اٹھائے۔ وزراء دفاع پاکستان کونسل کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں بھی گفتگو کرتے رہے جس کے بارے میں حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دھرنے کے دوران چند شدت پسند تنظیموں کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔ خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق‘ طارق فضل اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اس وقت تک سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر نہیں نکلے جب تک عمران خان اور دیگر درخواست گزار سپریم کورٹ کے احاطے سے باہر نہیں نکل گئے۔

مزیدخبریں