چیف جسٹس کی تنبیہ ‘ نوازشریف کا انصاف کا خون ہونے کا جذباتی بیان اور ریاض پیرزادہ کا صائب مشورہ
احتساب عدالت میں شریف خاندان کےخلاف نیب ریفرنسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کردی گئی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا، نواز شریف پر تین ریفرنسوں جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر لندن فلیٹس کے حوالے سے صرف ایک ریفرنس میں فرد جرم عائدکی گئی ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں صرف نواز شریف پر فرد جرم عائد کی گئی جبکہ تیسرے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم جمعة المبارک کے روز عائد کی گئی۔ نواز شریف کے نمائندے (پلیڈر)کے طور پر ظافر خان نامی شخص عدالت میں پیش ہوئے۔ اس روز کی کارروائی پر میاں نواز شریف نے اپنے ردعمل میں استفسار کیا کہ یہ انصاف ہو رہا ہے یا انصاف کا خون ہو رہا ہے۔ امید ہے میرے ساتھ انصاف کیا جائےگا۔ غیرموجودگی میں فرد جرم عائد کرنے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے پر جذبات کا اظہار شعر کی صورت میں کیا ”ہیں نئی روش کی عدالتیں اور نرالے ہی ڈھنگ کے فیصلے“ اس فیصلے پر یہی کہا جا سکتا ہے نہ نظیر ہے نہ دلیل ہے نہ وکیل ہے نہ اپیل ہے۔
دریں اثناءچیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں سپریم کورٹ کیخلاف محاذ آرائی کی صورتحال پر ریمارکس دیئے کہ یہ ملک اور اسکے ادارے ہم سب کے ہیں، انکا وقار اور ان پر اعتماد قومی فریضہ ہے، مجھے پیغام آتے ہیں کہ آپ کاوقار داﺅ پر لگا ہوا ہے، ایکشن کیوں نہیں لیتے، میں جذباتی نہیں ہوں اسی لئے قومی مفاد میں صبر وتحمل سے کام لے رہا ہوں، ہر وقت عدلیہ پر تنقید کرنےوالے ہوش کے ناخن لیں‘ غلط اقدامات پر مثبت تنقید ٹھیک ہے مگر حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اداروں کا تقدس پامال کرنا کسی طور درست نہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا فیصلے کو غلط کہنے کی بجائے اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ فیصلہ آیا کیوں اور ان لوگوں کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے جو عدالتی کارروائی میں ہوتے نہیں لیکن وکیل اور جج کے درمیان ہونیوالے مکالمے اور آبزرویشن پر پورے کے پورے پروگرام کر دیتے ہیں۔ ہم عدالت کے اندر کوئی آبزرویشن اور ریمارکس دیتے ہیں تو وہ کوئی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے اطمینان اور قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے پوچھتے ہیں، ان کو غلط طریقے سے پیش نہیں کیا جانا چاہئے۔
سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس اور آبزرویشن یقیناً کوئی فیصلہ نہیں ہوتے‘ فیصلہ وہی ہوتا ہے جو سماعت مکمل ہونے کے بعد متعلقہ بنچ صادر کرتا ہے مگر ہمارے ہاں ریمارکس پر فریقین کی طرف سے اپنے حق میں رائے دینے کا کلچر جڑیں پکڑ چکا ہے جس کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی۔ عدالتی ریمارکس کو اپنی جماعت اور دوسرے فریق کی مخالفت میں استعمال کرنے کی مثالیں سیاستدانوں سے متعلقہ مقدمات میں زیادہ ہی دیکھنے میں آئی ہیں۔ پانامہ اور عمران خان نااہلی کیسز کی ہر سماعت پر فریقین عدالت کے باہر اس روز کی عدالتی کارروائی کو اپنی جیت اور مخالف فریق کی شکست بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز نیب عدالت کی سماعت کے دوران بھی جاری ہے۔ اس سے دونوں فریق رائے عامہ کو اپنی سپورٹ میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اسے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش قرار دیا جائے تو بے جا نہیں۔اسکی صرف حوصلہ شکنی ہی نہیں بلکہ مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ اس کا بہترین متبادل عدالتی کارروائی کو براہ راست ٹی وی چینلز پر دکھانے کی صورت میں موجود ہے۔
عدلیہ کو ریمارکس دینے اور آبزرویشن دینے کا اختیار ہے مگر بعض اوقات ریمارکس سے الجھاﺅ‘ کنفیوژن اور غلط فہمیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کا ادراک ہونے پرفاضل ججز نے اپنے ریمارکس معذرت کے ساتھ واپس بھی لئے ہیں۔ فاضل عدالت فیصلے میں کسی کیلئے گاڈفادر کے الفاظ استعمال کر سکتی ہے۔ ریمارکس میں کسی کو مافیا کہہ دینے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے جس کو مافیا کہا گیا اسکی حالت اور جذبات کیا ہونگے۔ اسی طرح فیصلوں پر مثبت اور منفی رائے آسکتی ہے مگر عدلیہ اور ججز کی تضحیک کا کسی کو اختیار اور حق نہیں۔ اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی کا فاضل عدالت اختیار رکھتی ہے‘ اس پر اگر تحمل سے کام لیا جارہا ہے تو یہ فاضل عدالت کی وسیع الظرفی ہے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل کی میاں نوازشریف نے حمایت کی تھی تاہم اسکی شروع کی کارروائی میں میاں شفیع سے سخت سوالات پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے کان کھڑے ہوگئے۔ پارٹی لیڈرشپ کی برہمی کا آغاز اس روز سے شروع ہوا اور پھر چل سوچل۔خود اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف جلسوں اور انٹرویوز میں جے آئی ٹی کے ارکان پر برستے رہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر پانچ رکنی بینچ نے متفرق فیصلہ دیا۔ دو فاضل ججز نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جبکہ تین نے مزید انکوائری کا کہا۔ مزید انکوائری پر پانچوں فاضل ججز نے اتفاق کیا۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ میاں نوازشریف نے اس پر کہا تھا کہ آج ہم سرخرو ہوگئے مگر انکوائری کے بعد پانچ صفر سے نااہلیت کا اقامے پر فیصلہ آیا تو جے آئی ٹی کے ممبران کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) اور اسکی حکومت کی توپوںکا رخ عدلیہ کی طرف بھی ہوگیا۔ میاں نوازشریف فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ انہوں نے اسے طاقت اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ قرار دیا‘ انکے ہاکس نے میاں نوازشریف کے جذباتی موقف کو مزید زوردار طریقے سے اٹھایا۔ یہ فیصلہ چونکہ تحریک انصاف جیسی پارٹیوں کی توقعات اور خواہشات کے عین مطابق تھا اس لئے انکی طرف سے شادیانے بجائے جانا فطری امر تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ہاں ماتم ہونا ہی تھا‘ سو وہ ہورہا ہے۔ اس میں عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنائے جانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا۔ فوج کو بھی ساتھ گھسیٹا جارہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا گیا کہ اسکی قیادت کو اپیل کے ایک حق سے محروم رکھا گیا۔ نوازشریف فیملی نے فیصلے پر نظرثانی کا حق ضرور استعمال کیا مگر بھرپور تیاری کے بغیر وکلاءکیس کو سیاسی بنانے پر تلے رہے۔ میاں نوازشریف نے عدلیہ سے 12 13, سوالات کئے‘ انکے جوابات فاضل جج پریس کانفرنس کرکے تو نہیں دے سکتے تاہم تفصیلی فیصلے میں شاید جوابات سامنے آجائیں۔ میاں نوازشریف نیب کو چھ ماہ میں فیصلے کرنے اور نیب پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس سب کے باوجود ان کیلئے نیب میں خود کو سرخرو کرنے کا ایک موقع موجود ہے‘ وہ احتساب عدالت پر دباﺅ ڈالنے کے بجائے اپنی صفائی میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کریں۔
میاں نوازشریف پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہے‘ انکی ہر بات کو پاکستان اور دنیا بھر میں اہمیت دی جاتی ہے۔ انکی قومی اسمبلی میں اکثریت ہے‘ اگلے سال مارچ میں سینٹ میں بھی انکی پارٹی اکثریت کی حامل ہو سکتی ہے جس کے بعد کسی بھی قسم کی قانون سازی کیلئے مسلم لیگ (ن) کو کسی دوسری پارٹی کی احتیاج نہیں رہے گی۔ مگر قانون سازی قومی مفاد میں کی جائے تو اسکی برملا تحسین ہوتی ہے۔ شخصیات کو تحفظ دینے کیلئے قانون سازی سے نیک نامی نہیں ہو سکتی۔ نااہل شخص کیلئے پارٹی سربراہ بننے کی راہ ہموار ہونے کے بعد میاں نوازشریف قانون کے مطابق پارٹی کے سربراہ بن گئے۔ وہ خود اندازہ کریں کہ اس سے انکے سیاسی قدکاٹھ میں کتنا اضافہ اور سیاسی مقام کتنا بلند ہوا۔ فردِجرم عائد ہونے پر انہوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا‘ اسے انصاف کا خون ہونے سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ غیرموجودگی میں فردِجرم عائد ہونے کی کوئی نظیر نہیں ملتی جبکہ وہ خود ظافر خان نامی شخص کو اپنا نمائندہ مقرر کرکے گئے تھے۔ اسی بناءپر عدالت نے ان کو 26 اکتوبر تک استثنیٰ دیا تھا۔ ایسے بیانات سے انکی سیاسی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اور انکے قول وفعل کو میڈیا میں زیربحث لایا جاتا ہے۔
میاں نوازشریف کو نااہلیت کے باوجود پارٹی اور حکومتی امور چلانے کی کھلی آزادی ہے۔ خاقان عباسی انکے نامزد وزیراعظم ہیں‘ کابینہ میاں نوازشریف نے خود تشکیل دی جس میں عدلیہ اور فوج کیخلاف ہرزہ سرائی کرنیوالوں کو خصوصی طور پر شامل کیاگیا جو اداروں کے ساتھ محاذآرائی کا ایک پیغام ہے۔ آج جس طرح سے دشمن پاکستان کا گھیراﺅ کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ اداروں کا ایک پیج پر ہونا اولین ترجیح ہونی چاہیے مگر کابینہ کے اکثر ارکان پارٹی قیادت کی خوشنودی کیلئے پارٹی قائد کی بات زیادہ زوردار طریقے سے دہراتے ہیں جو عموماً اداروں کیخلاف ہوتی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرف سے سیاستدانوں کیلئے ہوش کے ناخن لینے کے ریمارکس ایک تنبیہہ ہونے چاہئیں۔ کل اسی عدالت کے سامنے نہال ہاشمی اور عمران خان کی طرح غیرمشروط معافی کی درخواست کرنا پڑسکتی ہے۔
بادی النظر میں میاں نوازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) اداروں کے بالمقابل آچکی ہے۔ وہ بھی پارٹی کے خیرخواہ اور سینئر رہنماﺅں کے مشوروں کے برعکس۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور چودھری نثار علی خاں اداروں اور پارٹی کے ایک ساتھ چلنے پر زور دیتے رہے ہیں مگر میاں نوازشریف نے ہارڈلائنرز کی بات سنی اور محاذآرائی کی راہ اختیار کی۔ پارٹی کے اندر سے بھی اختلافات کی بازگشت سنائی دیتی رہی مگر اس کا اظہار بوجوہ نہیں کیا گیا مگر اب کئی آوازوں کی ایک آواز وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کی سامنے آئی ہے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ طوفان کو جانے دیں، پارٹی کو آپ کی ضرورت ہے، وقت آگیا ہے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہا جائے۔ ہمیں اداروں سے انصاف چاہئے جب تک صورت حال بہتر نہیں ہوتی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پارٹی کو ٹیک اوور کرلیں تو بہتر ہو گا، وہ صحیح مشورہ دے رہے ہیں اور میدان میں کام کرنے والے ہیں، ملک کو کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کی ضرورت نہیں۔
ریاض پیرزادہ (ق) لیگ سے آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) سے انکی وابستگی سوالیہ نشان ہو سکتی ہے مگر انکے وزیر ہوتے ہوئے ایسے مشورے پارٹی کے اندر بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سوائے چند ہاکس کے کوئی بھی حکومت اور اداروں کے درمیان کشیدگی کا خواہش مند نہیں ہے۔ میاں نوازشریف اس حوالے سے معاملات کو اتنا آگے لے گئے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ریاض پیرزادہ نے میاں شہبازشریف کو پارٹی ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اسے صائب قرار دیا جا سکتا ہے ‘ باوجود اسکے کہ اس سے پارٹی میں انتشار پھیل سکتا ہے۔ پارٹی شکست و ریخت سے دوچار ہو سکتی ہے۔ معروضی حالات میں پارٹی کو متحد رکھنے کیلئے بال میاں نوازشریف کی کورٹ میں ہے۔ وہ حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کریں‘ پارٹی امور اپنے کسی بااعتماد اور مخلص ساتھی کے حوالے کردیں جو اداروں کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہو۔ اس حوالے سے شہبازشریف سے بہتر شاید ہی کوئی اور شخصیت ہو۔ میاں نوازشریف اپنی پوری توجہ احتساب عدالت میں جاری کیسز پر مرکوز کرکے سرخرو ہونے کی کوشش کریں۔