آج حالات اتنے تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ سوچ بھی ساتھ نہیں دے سکتی ۔ ملک کی کشتی ڈانواں ڈول ہورہی ہے کہ کسی کے سنبھالے سے بھی نہیں سنبھلتی۔ امریکی ٹرمپ پالیسی مودی کی زبان بولنے پر اکتفا کررہی ہے لیکن دیگر ممالک اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں۔ اب جبکہ امریکہ کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ روس‘ چین‘ پاکستان‘ ایران کا ایک مضبوط بلاک بننے کیلئے پر تول رہا ہے اور پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی امریکہ کو No More کہناشروع کردیا ہے اور دنیا نے داعش کوامریکہ کی تخلیق قرار دے دیا ہے اور کرزئی جیسے سابق صدر افغانستان نے بھی امریکہ کو داعش کا موجب قرار دے دیا ہے تو ٹرمپ اور ان کے حواریوں کو ہوش آنے لگا ہے کہ امریکی پالیسی ناکام ہورہی ہے۔
اس موقع پر امریکہ نے ایک نئی چال چلی اور امریکی باشندہ کو پاکستان سے مل کر برآمد کرالیا جو عقل ماننے کیلئے تیار نہیں کہ جب امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی C I A کے پاکستان ایجنسی سے تعلقات اسامہ بن لادن کے قتل کرنے کے اقدام سے لےکر اب تک منقطع تھے تو یکلخت پاکستان کی ایجنسی نے کیسے امریکہ کے ہیلی کاپٹر کو اپنے ہیلی کاپٹر کے نیچے چلنے کیلئے تیار کرلیا اور پھر مغوی بھی برآمد کرا لئے اور کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا۔
مغویہ عورت امریکن C I Aکی ایجنٹ نظر آتی ہے اور یہ سب ڈرامہ ایک نیا ڈرامہ شروع کرانے کیلئے کیا گیا۔ اسکے فوراً بعد برطانیہ کے چیف کمانڈر بھی پاکستان آئے اور کینیڈین گورنمنٹ نے بھی پذیرائی کی۔ خود ٹرمپ نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور امریکی وزیر دفاع اور امریکی وزیر خارجہ کا دورہ بھی پاکستان میں جلد متوقع ہے یہ یو ٹرن کسی نئی چال کا حصہ تو نہیں۔
سی پیک کو نقصان پہنچانے اور چین روس کے ساتھ تعلقات خراب کرانے کی سازش تو نہیں۔ پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔امریکہ‘ روس‘ چین اور پاکستان امریکہ کے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم ہوئے تھے وہ بھی بحال ہوگئے ہیں۔ آئی ایم ایف جو پہلے پاکستان کی معاشی بدحالی کا ذکر کر رہے تھے یکلخت نوازشریف کی حکومت کی معاشی بحالی کا ذکر اچھے الفاظ میں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
پالیسی کا اچانک بدلنا کسی گہری سازش ہونے کا اشارہ تو نہیں۔ Ecnomic Human کے مصنف نے تو تسلیم کیا ہے کہ جب کسی ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اسے بڑے بڑے منصوبے بنانے کیلئے قرضے دیئے جاتے ہیں اور پھر اس ملک کو دیوالیہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے بھی 45 ارب کے بیرونی قرضے لئے ہیں جبکہ پاکستان نے 70 سالوں میں 35 ارب کے قرضے لئے تھے یعنی 70 سالوں میں جو قرضے پاکستان نے لئے اس سے 10 ارب قرضے چار سالوں میں زائد ہوگئے۔ اگر عسکری قیادت نے معاشی بدحالی کا ذکر کیا تو غیرمناسب نہیں تھا۔
احسن اقبال جو وزیر داخلہ ہیں ان کو چیں بجیںہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی معاشی بدحالی کا ذکر کرکے اگر حکومت وقت کو متنبہ نہ کیا جائے تو یہ بدمست ہاتھی ملک کو ڈیفالٹ کرا دیتا۔ عسکری قیادت نے ملکی اور غیرملکی خطرات سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے اس لئے اندرونی خطرات کا ذکر نہ کرنا پاکستان سے زیادتی ہوتی۔ ایک طرف مودی صاحب نے پاکستان بارڈر پر چھیڑ چھاڑ بلاوجہ شروع کی ہوئی ہے اور پاکستان کو اکسایا جارہا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی کارروائی شروع کرنے کا جواز ڈھونڈا جارہا ہے۔
دوسری طرف اچکزئی جس کا بھائی گورنر بلوچستان بھی ہے اسکی طرف سے غفار خان سے بھی بڑھ کر پاکستان کوپختونستان بنانے کے عندیہ دیئے جارہے ہیں کہ افغانستان کے مہاجروں کو پاکستان سے واپس افغانستان نہیں بھجوایا جاسکتا۔
دوسری طرف فضل الرحمن صاحب نے فاٹا کو سرحد کے صوبہ میں شامل نہ کرنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔ قوم نے پانامہ کا ڈرامہ دیکھا تھا تو اقامہ پر آکر ختم ہوا پھر J I T بننے کا ڈرامہ دیکھا تھا J I T کے بعد اب کورٹ Proceeding دیکھی۔ ایک طرف کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیا جارہا ہے اور دوسری طرف کورٹ کو کام مکمل نہ کرنے دینے کے حربے سامنے آئے‘ کہیں رینجرز کے آنے کا اعتراض اور کہیں پولیس سے ہاتھاپائی اور نیب کے پراسیکیوٹر کو مارنے دھمکانے اور ریکارڈ چھیننے کی کوشش بھی ٹی وی پر دکھائی گئی۔
جج کا بغیر مقدمہ سنے عدالت سے اٹھ جانا اور ریکارڈ کو بچانے کیلئے چیمبر بچانے کے قصے بھی سنے‘ آخر ہم جاکدھر کو رہے ہیں۔ جب عدالتیں کام نہ کرسکیں گی تو بقول چرچل ملک کیسے چلے گا۔ جنگ عظیم دوئم میں جب برطانیہ پر بمباری ہورہی تھی تو چرچل سے پوچھا گیا کہ برطانیہ قائم رہ سکے گا تو انہوں نے جواب دیا تھا کیا عدالتیں کام کررہی ہیں‘ ہاں کا جب جواب ملا تو انہوں نے کہا پھر ملک چلتا رہے گا اور قائم رہے گا۔جب عدالتوں کو کام نہ کرنے دیا گیا تو پھر سپریم کورپ کو بحالت مجبوری کہنا پڑےگا کہ حکومت وقت نہیں چل سکتی۔
میں حیران ہوں کہ موجودہ حکومت اورر سابقہ وزیراعظم صاحب کے مشیر ان کو غلط مشورے کیوں دے رہے ہیں۔ عدالت نہ چلنے کا ایک جواز بن جائیگا۔عدلیہ موجودہ حکومت کو ڈسمس کرنے اور پھر فوج کو 190 کے تحت حکومت پر قبضہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔وہ راستہ جو بقول شخصے عسکری قیادت کو آنے کا نہیں مل رہا وہ راستہ خود موجودہ حکومت نوازشریف صاحب کے ناعاقبت اندیش مشیر کیوں دے رہے ہیں ....
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اگر موجودہ حکومت اور میاں نوازشریف عدلیہ اور فوج کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ تشریف لائیں تو اور بات ہے ورنہ عدالتوں سے مڈ بھیڑ مہنگا سودا ہوگا۔ مظلوم بن کر اگلے الیکشن جیتنے کا تو یہ خیال خام ہے اب ممکن تب ہوگا کیونکہ اگر حکومت Dismiss کردی جائےگی تو پھر مقدمات آسانی سے چلیں گے اور انجام تک پہنچیں گے۔ بھٹو سے زیادہ عوام میں پذیرائی رکھنے والا کوئی پاکستان میں لیڈر پیدا نہیں ہوا لیکن جب ان کو پھانسی لگی تو اس روز ایک وزیر نے نئی شادی رچائی تھی اور چڑیا نے بھی پر نہیں مارا تھا۔
ہسٹری سے سبق سیکھیں
When you laugh the whole world will laugh with you when you weep you weep Alone
جب آپ ہنستے ہیں تو زمانہ آپکے ساتھ ہنستا ہے‘ جب روتے ہیں تو اکیلے روتے ہیں یہ دنیا کی ریت ہے اس سے سبق سیکھنا چاہیے جو وقت کے تقاضوں کے ساتھ نہیں چلتا وقت بھی اسے مہلت نہیں دیتا۔ انسان پر مصیبتیں بھی آتی ہیں اور گزر بھی جاتی ہیں‘ حکومت کے چند وزیر حکومت کو غلط مشورے دے رہے ہیں جس کو بقول شخصے راستہ نہیں مل رہا ان کو راستہ خود مہیا نہ کریں۔
زرداری صاحب کو آپ کچھ بھی کہہ لیں انہوں نے بہت بُرے دنوں کا مقابلہ کیا‘ زبان بھی کٹوانے کی دھمکی برداشت کی اور جب برا وقت ختم ہوا پانچ سال صدر پاکستان بھی رہے۔
یوسف رضا گیلانی نے بھی کورٹ سے نکلنا خوش اسلوبی سے قبول کیا اب بھی وہ سیاست میں ہیں۔ سیاست دانوں کے ستارے گردش میں بھی آتے ہیں اور وہ دن بھی گزر جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہمت کے ساتھ بُرے دنوں سے گزرا جائے اور اچھے دنوں کا انتظار کیا جائے۔ ہمیشہ اچھے دن بھی نہیں ہوتے اور ہمیشہ برے دن بھی نہیں ہوتے۔ وقت کا انتظار کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
پرانے سیاستدان اسمبلی میں ایک دوسرے کا نقطہ نظر برداشت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں خانپور میں مجسٹریٹ تھا قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا۔ ان دنوں کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا خیبر میل پر وفاقی وزراءآئے وہ نواب بہاولپور کی شکارگاہ پر مرغابیوں کا شکار کھیلنے جارہے تھے جب خانپور اترے تو اس گاڑی میں میاں افتخار الدین بھی جارہے تھے۔ ان کیخلاف پاکستان ٹائمز کے ایک صفحہ پر حکومت خبر چھپی تھی لیکن وفاقی وزراءمیاں افتخار الدین کو کراچی خیبر میل سے اتارنے کیلئے ان کے ڈبہ میں گھسے ہوئے تھے اور انہیں بھی ساتھ لے جانا چاہیے تھا۔
اسمبلی میں بے شک ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے مخالف تقاریر بھی ہوتی تھیں لیکن اسمبلی کے باہر ایک دوسرے کے دوست ہوتے تھے۔ آجکل سیاستدانوں کی زبان پر غلیظ الفاظ ایک دوسرے کے متعلق بولے جاتے ہیں ایک دوسرے کو ڈاکو‘ چور کہنا زیب نہیں دیتا۔ ایک دوسرے کی پالیسی سے اختلاف کرنا حق ہے لیکن ایک دوسرے کیخلاف بدزبانی سیاستدانوں کی شان کےخلاف ہے‘ راستہ نہ ملنا اور راستہ دینا عجیب بات ہے ....
تیرا ملنا نہیں آساں پر سہل ہے
دشوار تو ہے لیکن دشوار بھی نہیں
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آﺅ
Oct 21, 2017