خیبر سے کیماڑی اور فاٹا سے بولان تک محیط اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس صوبہ کے تیرہ کروڑ کے لگ بھگ عوام میں سے چالیس فیصد نفوس ایسے ہی جو خطِ غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عالمی اور ملکی اداروں کی ایسی مصدقہ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے کروڑوں خاندانوں کے بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور مردوں کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر کھانے کو نہیں ملتی۔ جب حقیقت حال اس طرح ہو تو اس امر کا اندازہ لگانا بعید از قیاس نہیں ہوتا کہ اس صوبے میں جہاں کے ارباب حکومت اربوں کھربوں روپے کے غیرملکی قرضوں کو جوکہ ننگے اور فاقہ کش عوام کو جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنے پر رتی بھر توجہ نہیں دیتے اور صوبے کی چالیس فیصد سے زائد کی جائز اور لازمی ضروریات کی فراہمی کی بجائے قرضوں کی بھاری رقوم کو ایسے منصوبوں اور پراجیکٹ کو مکمل کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہوں جن کا عام غریب طبقے کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے ہی ناقابل بیان عوامی مسائل سے لتھڑے ہوئے صوبے کے کسی دو ایک مخصوص علاقوں میں من پسند اور خودنمائی کی خواہش کے آئینہ دار منصوبوں پر اربوں کھربوں روپوں کے خرچ کو محب وطن‘ مفلس و قلاش اور بے بس عوام سے بیوفائی ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ ارباب اختیار کی اس روش کو مخصوص مفادات کے تحت آگے بڑھانے اور پھلنے پھولنے کے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے گئے اور اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کی مثال کرہ¿ ارض کے کسی جمہوری معاشرے اور اپنے اپنے ملک اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر سیاست میں سرگرم عمل عناصر میں نہیں ملتی۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ صوبے میں چالیس فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہی تھی مگر حالیہ صرف ایک برس کے دوران موجودہ حکمرانوں کی طرف سے ایسے بے نوا کروڑوں خاندانوں کے مصائب و آلام کے ازالہ کی طرف توجہ نہ دینے کے باعث بدحالی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ اس دوران سبزیوں‘ دالوں‘ اجناس اور عوام کی دیگر ضروری اشیاءمیں جو ریکارڈ گرانی کا طوفان آیا ہے‘ وہ اس حکومت کے سیاہ کارناموں میں اضافہ کا باعث بنے گا مگر اربابِ اختیار ایسے حقائق اور ان کے نتائج سے بے پروا اپنے مراعات یافتہ لوگوں کا حلقہ پیدا کرنے میں ہی اپنی بقاءاور اقتدار کے دوام کا راز سمجھے ہوئے ہیں۔ شاہراہ حیات پر اپنے بھوکے بچوں‘ عورتوں اور دیگر اہل خانہ کے ہمراہ سسکتے ہوئے عوام پر یہ راز اس وقت کھلتا ہے جب کرسی¿ انصاف ایسی معاشرتی اور سیاحتی ناانصافیوں پر بے ساختہ پکار اُٹھتی ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں نوائے وقت میں وقائع نگار خصوصی کے حوالے سے شائع ہونے والی اس خبر نے صوبے بھر کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد کو چونکا کر رکھ دیا۔ وہ سبھی دل تھام کر رہ گئے کہ آخر پنجاب کے حکمرانوں کی یہ نوازشیں اور قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کس مقصد کیلئے ہے۔ اس خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے صاف پانی کمپنی میں بھاری تنخواہوں پر افسروں کی تعیناتی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اڑھائی لاکھ روپے ماہوار تنخواہ والے عہدوںپر پچیس پچیس لاکھ روپے پر افسروں کی فوج بھرتی کی گئی۔ یہ کس قانون کے تحت کیا گیا۔ عدالت عالیہ کے جج مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے صاف پانی کمپنی میں بھاری تنخواہوں پر خلاف قانون افسروں کی بھرتی سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ قوم کا ایک ایک بچہ ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ حکومت نے 25‘ 25 لاکھ ماہوار پر افسروں کی بھرتیاں کس قانون کے تحت کی گئی ہیں۔ مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے ایک دور رس نتائج کی حامل بات بھی کہہ دی کہ ملک کی ایک ایک پائی قیمتی ہے۔ عدالت میں موجود چیف سیکرٹری پنجاب کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا آپ پیسے کس حیثیت سے لٹا رہے ہیں۔ پہلے آپ بھاری تنخواہوں پر افسر بھرتی کرتے ہیں بعد میں ریکارڈ کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں عدالتیں خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی نہیں رہ سکتیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے ان ریمارکس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اس کے ٹھیک دو دن بعد فیصل ٹاﺅن تھانے کو آگ نے آلیا۔ اس سلسلے میں نوائے وقت میں نامہ نگار کے حوالے سے شائع شدہ خبر میں کہا گیا کہ تھانہ فیصل ٹاﺅن میں پراسرار آتشزدگی کے باعث سانحہ ماڈل ٹاﺅن سمیت اہم ریکارڈ اور سامان جل کر تباہ ہو گیا۔ اگرچہ خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ پولیس حکام کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا ریکارڈ محفوظ ہے‘ تاہم یہ عقدہ بھی وقت آنے پر کھلے گا۔
پنجاب اور اس کی طبی سہولتوں اور ادویات سے محروم کروڑوں خاندان کسمپرسی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حضور معمول کی طرح کسی نجات دہندہ کیلئے دعاگو تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اپنے عہدِاقتدار کے قریباً ساڑھے آٹھ سال پورے جاہ و جلال سے گزارتے ہوئے مظفر گڑھ میں گورنمنٹ طیب اردگان ہسپتال کے دورہ کے دوران میں عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے پروگراموں سے آگاہ کرنے میں بلندوبانگ دعوے کر رہے تھے تو اسی روز پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تمام سرکاری ہسپتالوں کی ابتر اور ناگفتہ حالی اپنی مثال آپ تھی۔ سبھی حکومتی ہسپتال اس حکومت کے عوامی دکھوں کے مداوا کی طرف توجہ نہ دینے کی پوری طرح عکاسی کرتے نظر آئے۔ موجودہ حکمرانوں نے اپنے حالیہ ساڑھے آٹھ سالہ دوراقتدار میں عام آدمی کو طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے بلندوبانگ دعوے کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس کی حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں بلاشرکت غیرے ارتکاز اقتدار و اختیار کی روایت پر عمل پیرا ایوان اقتدار کے مکین کی اقامت گاہ کی عین ناک کے نیچے در پیش بائیں واقعہ تمام سرکاری شفاخانوں کی جو صورتحال روزنامہ نوائے قوت میں نیوز رپورٹر کے حوالے سے شائع ہوئی اس کی ہولناکیوں کا اندازہ وہی ہزاروں غریب، خاندانوں سے تعلق رکھنے والے مریض مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے ہی لگا سکتے ہیں جو انتہائی بے بسی اور مجبوری کی حالت میں اپنی غربت و مفلسی اور فاقہ کشی سے مجبور ہو کر سرکاری ہسپتالوں سے علاج معالجے کے لئے گئے تھے کیونکہ ان میں کوئی بھی نجی شفاخانوں یا پرائیویٹ طور پر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔
اس حوالے سے جو رپورٹ شائع ہوئی اس نے پنجاب حکومت کی گزشتہ ساڑھے آٹھ نو برسوں کے عوامی مسائل کے حل اور انہیں طبی سہولتٰوں کی فراہمی کے دعوﺅں کا بھرم کھول کر رکھ دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ لاہور میں گنگارام ہسپتال، جنرل ہسپتال ، سروسز ہسپتال، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، جناح ہسپتال، چلڈرن ہسپتال اور میوہسپتال میں صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ مریضوں کیلئے ضرورت کے مطابق بستر دستیاب نہیں ایک ایک بیڈ پر دو، دو مریض لٹائے جاتے ہیں۔ مریضوں کیلئے ضرورت کے مطابق بیڈز دستیاب نہ ہونے کا سلسلہ عرصہ دراز سے دیکھنے میں آ رہا ہے مگر غریب عوام کی اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ارباب حکومت نے توجہ دینا کسر شان سمجھ رکھا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ارباب حکومت ، ان کے خاندان کے افراد، ایوان اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی حاصل رکھنے والے ان کے حاشیہ نشین اور خواری اپنے علاج معالجے کیلئے بیرونی ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں اسی طرح جمہوری اداروں کے اقتدار کے مکینوں کی ہاں بھی ہاں ملا کر حکومتی وسائل سے علاج معالجے کی سہولتیں حاصل کرنے والے ارکان بھی علاج معالجہ بیرونی ممالک میں جا کر کراتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سرکاری سطح پر قائم ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی معیاری سہولتوں کی فراہمی سے صرف نظرانداز کیا جاتا ہے، اور اس سلسلے میں غریب و مستحق عوام کو صرف خوشنما دعوﺅں اور نعروں ہی سے سبز باغ دکھا کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
ان سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی بھی مستحق مریضوں کے لئے خوفناک مسئلہ بن چکی ہے حکمران اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ عوام کو بلا تخصیص علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے مگر حکمران اس سلسلے میں اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کو جزو ایمان سمجھنے کی بجائے ان کروڑوں غریب خاندانوں سے علاج معالجے کے بارے میں”ناداروں“ کی امداد کے نظریہ کو فروغ دیتے ہیں جبکہ قوم کے ہر غریب سے غریب آدمی کا بھی ملکی اور قومی وسائل میں اتنا ہی حصہ ہے جس قدر حکمرانوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے مگر صوبے کے صاحبان اقتدار ا نے ارتکاز اقتدار کی ہوس کی بدولت پنجاب کے کروڑوں خاندانوں کو ان کے جائز آئینی اور قانونی حقوق دینے سے گریز کی پالیسی اپنا کر پنجاب کو اکیسویں صدی کے ثمرات سے نہ صرف محروم کردیا ہے بلکہ اس خطے کو دور غلامی کی بیسویں صدی کے اوائل میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔ حکمرانوں کے ہاتھوں پنجاب اور اس کے عوام کی ایسی درگت یقیناً تٰاریخ میں ایک ا لمناک باب کے طور پر رقم رہے گا۔