سیاستدان اقتدار اور عوام روکھی سُوکھی روٹی کے لے سرگردا ں؟؟

اِس میں شک نہیں ہے کہ ہم تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزررہے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہم پاکستا نی اور بحیثیت مسلمان دینِ اسلام کی چھتری تلے جمع توضرور ہیں، مگر بڑ ے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ پھر بھی پتہ نہیں کیو ں؟ ہم بظاہر اچھے اور متحد نظرآنے والے اندر سے با ہم متحدو منظم اور ملی یکجہتی اور یگا نگت کا ویسا نمو نہ نہیں ہیں جیسا کہ ہمیں حقیقی معنوں میں ہونا چا ہئے تھا اور آج جیساکہ ہم سے اپنی بقا ءو سا لمیت کے حوا لوں سے وقت اور حالات تقا ضہ کررہے ہیں ابھی ہمیں بہت کچھ کرنا ہے مگرہم توجھوٹ ، فریب دھوکہ بازی سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں دونمبری مشہور ہو گئے ہیں ، اگر اب بھی ہم نے اپنا محا سبہ اور احتسا ب نہ کیا توخدشہ ہے کہ خا کم بد ہن ہم کہیںقصہ پا رینہ نہ بن جا ئیں ،قبل اِس کے کہ ایسا کوئی بُرا لمحہ یا وقت آئے ،ا للہ ہمیں تو بہ کرنے اور خود کو سُدھارنے اور صحیح معنوں میں پاکستا نی اور مسلمان بننے کی تو فیق عطا فرما ئے۔ اِس بات سے اِنکار نہیں کہ پا کستان بنانے والے ہما رے با نیان نے تو پاکستان سو فیصد صحیح بنا یا تھا مگر گزشتہ ستر سا لوں میں سرزمینِ پاکستان پر جن سِویلین اور آمروں کی حکمرانی قا ئم رہی اور ہنوز جا ری ہے اِن سب ہی نے اپنی جیب اور پیٹ بھر ے۔ اِن میں سے کبھی بھی کسی سِول یا آمر حکمران نے اپنے مفادات سے ہٹ کر مُلک اور قوم کے بہتر مستقبل اور فلا ح و بہبود کے جذ بوں سے سرشارہو کر اپنا حقِ حکمرا نی ادا نہیں کیا اگر کسی نے بھی خودسے زیادہ مُلک اور قوم کے مفادات کو مقدم جان کر مسندِ اقتدار سنبھالا ہوتا تو قوم اپنے بنیا دی حقوق سے محروم نہ رہتی‘ نہ مُلک کی ترقی کاکبھی پہیہ رکتا اور نہ ہی پاکستا ن توا نا ئی کے بحرانوں میں جکڑاجا تا۔نہ ہی پاکستا نی قوم دہشت گردی ، لوٹ مار قتل و غارت گری کا شکار ہو تی اور ہم بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دھنس کر مہنگا ئی کے نہ ختم ہو نے والے طوفان سے تباہ حال ہو کر مشکلات ا ور پریشا نیوں کے منہ میں پس رہے ہوتے۔ آج مُلک و قوم کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے والے سیاسی خا ندانوں نے مُلک، آئین ،عوام اور قومی اداروں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے،جن کے کبھی ستارے نہیں ملتے تھے آج یہ سارے سیاسی باز ی گر کبھی میثاقِ جمہوریت یا مذاقِ جمہوریت تو کبھی این آر اوتو کبھی معا ہدہ بھور پن پر بغل گیر ہوئے اور آنے والے دِنوں میں پھر یہ سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور اقتدار کے لئے ایک ہو نے کو ہیں۔ یہ اپنے مفادات کے حصول کیلئےعوام کی نظروں میں دُھول جھو نکنے کے لئے کبھی نوراکُشتی کرتے ہیں اور کبھی اپنے تمام مصنوعی اختلافات کو بھلا کر خالصتاََ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطر ایکپیج پر بھی دِکھا ئی دیتے ہیں، ن لیگ اور پی پی پی کے سیاسی خاندانوں کے درمیان ایک عرصے سے یہی کچھ ہوتا چلاآرہاہے اورپھر ہو نے کوہے جبکہ اِدھر بیچارے پریشا نیوں میں جکڑے بد حال عوام ہیں کہ یہ اِن دونوں سیاسی خا ندان والوں کا کھیل سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ سیاستدان اپنی کرپشن کو احتساب کے عمل سے بچا نے کے لئے نیب کا نیا چیئر مین لے آئے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ قو می احتساب بیورو کی سربراہی کے منصبِ اعلیٰ پر سیاسی خاندان والوں اور اِن کے اِدھر اُدھر کے حواریوں نے جن ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے خاطر سُپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جا وید اقبال کو نیب کی سربرا ہی سونپی ہے وہ سیاسی خا ندانوں اور سیاستدانوں کے دباو¿ میں آتے ہیں یا اپنی ایماندارا نہ صلا حیتوں کو بروئے کار لا تے ہوئے کرپٹ سیاسی خا ندانوں اور سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں، اگر سا بق جج جسٹس جا وید اقبال نیب کا منصبِ خا ص سنبھالنے کے بعد اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے ہیںتو اُمید کی جا سکتی ہے کہ مُلک سے کرپٹ عنا صر کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا ورنہ ، نہ صرف قومی احتساب بیور بلکہ اعلیٰ منصب پر فا ئز شخصیات کے دُہرے معیار پر بھی قوم سوالیہ نشان لگا نے سے دریغ نہیں کرے گی۔یہ حکمرا نی کرنے والوں کا طرہ امتیاز بن گیا ہے کہ مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر بیرونی آقاو¿ں کے اشاروں اور ڈکٹیشنز پر عمل کرتے رہو ا، اربوں کی امداد اور قر ضے تو لو مگر اِنہیں اپنے اور اپنے خاندانوں کے افراد کے نا موں سے کھولے گئے بیرون ممالک بینک اکاﺅنٹس میں منتقل کرواور اثا ثے بڑھا تے جا و¿،قومی خزا نے کو لوٹ کھا و¿ اورمُلک اور قوم کا ستیاناس کرتے جاو¿۔ بھا ڑ میں جا ئے قومی وقار بس اپنا وقار اورامیج مجروح نہ ہو نے دو اور جب کبھی آف شورکمپنیاں سا منے آجا ئیں تو پھر اعلیٰ عدلیہ سے اپنی نا اہلی پر چیخ چیخ کر ” مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیو ں نکالا؟؟ کی رٹ لگاتے سڑکوں پر نکل آ و¿، قوم کواداروں کے خلاف مشتعل کردو اور پھر قوم اور اداروں کو لڑوا کر اپنا اُلو سیدھا کرتے جا و¿۔آج ایک طرف مُلک میں سیاسی خاندان ن لیگ اور پی پی پی کے سیاستدان اور حکمران ہیں جو اگلے انتخابات میں اپنی باریوں کے مطابق اقتدار کے حصول کے لئے ہر نا جا ئز عمل کو جا ئزقرار دلوا نے پر تُلے بیٹھے ہیں تو دوسری جا نب ستر سالوں سے سیاستدانوں کے ہا تھوں اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی با ندھے مفلوک الحال اور دو وقت کی رو کھی سُوکھی روٹی کے حصول کے لئےسر گرداں ہیں کہ جو ابھی تک مُلک میں سیاسی خا ندانوں کی چالاکیا ں سمجھنے کے لئے اپنی عقل سے کام لینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ا ب بھی پاکستا نی عوام کی اچھی خا صی تعدا د سا بق وزیراعظم نوازشریف کی نا اہلی کے فیصلے کو یہ کہہ کر” ایک نوازشریف نے ذراسی کرپشن کیا کرلی ہے تواِسے نا اہل قرار دے کر عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے کان سے پکڑکرنکال باہر کردیا گیا ہے جبکہ دوسرے بھی تو کرپٹ ہیں جن کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا ہے“ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں جبکہ یہ بھی سوچنا چا ہئے کہ جب اِسی سرزمین پراِن جیسا کو ئی بھوکاغریب ایک روٹی چوری کرلیتا ہے تواُسے یہی قا نون فوراََ سزادیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن