نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا اخلاقی طور پر بُرا لگتاہے ، آئین نہیں روکتا تو کیا کرسکتے ہیں : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے انتخابی اصلاحاتی ایکٹ2017 کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مزید دلائل طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جمہوریت میں ووٹرز کی رائے کا ہی احترام مقدم ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق یہ ووٹرز کا حق ہے کہ وہ کسی ڈیفالٹر اور نااہل کو ووٹ دیں یا کسی دوسرے شخص کو۔ اخلاقی طور برا لگتا ہے کہ نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے مگر برا یا عجیب لگنے کی بنیاد پر قانون کالعدم نہیں کئے جاتے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کیخلاف اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ سمیت دیگر کی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پرسماعت کی، وفاقی حکومت کے وکیل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسی معاملے پردرخواستوں سپریم کورٹ میں بھی زیرالتواء ہیں۔ درخواستگزاروں کے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ اس ایکٹ کے ذریعے ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنایا گیا۔ یہ اقدام بدنیتی پر مبنی ہے لہٰذا ہائیکورٹ اسکا جائزہ لے سکتی ہے۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کسی بھی شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے۔ آئین میں اور انتخابی قوانین میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ نااہل شخص یا ڈیفالٹر قرار دیا گیا شخص سیاسی جماعت نہیں بنا سکتا جس پر درخواست گزاروں کے وکلاء نے کہا کہ اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی عجیب ہے اور برا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے جس شخص کو کرپشن پر نااہل کیا اس شخص کو قانون میں ترمیم کرکے سیاسی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اخلاقی طور پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بات عجیب یا بری لگے لیکن عدلیہ عجیب یا برے لگنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ درخواستگزار وکلاء نے کہا کہ عدالت نے ایک فلٹر بھی لگانا ہوتا ہے۔ اس طرح تو کوئی بھی دہشت گرد سیاسی جماعت بنا سکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ فلٹریشن کاکام کرنا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں۔ یہ بات پارلیمنٹ میں لے کر جائیں اور پارلیمنٹ کوبتائیں کہ کیا درست اور کیا غلط ہے۔ عدلیہ ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ جمہوریت میں ووٹرز کی رائے کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ ووٹرز جس کو چاہیں اپنا نمائندہ منتخب کریں۔ آئین نے ووٹرز کو یہ حق دیا ہے کہ وہ کسی ڈیفالٹر کو ووٹ دیں یا کسی نااہل کو ووٹ دیں۔ اگر اس پرکسی کو اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ میں جا کر بات کرے لیکن ایسے معاملے عدلیہ میں نہ لائے جائیں اور عدلیہ کو مجبور نہ کیاجائے کہ وہ آئین اور قانون چھوڑ کر اخلاقی بنیادوں پر فیصلے کرنے لگ جائے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کل کوئی عورت عدالت آ جائے اورکہے کہ اسکا شوہر اس پر بہت تشدد کرتا ہے اور وہ کرپٹ بھی ہے لہٰذا اسے نااہل کیا جائے تو ایسا تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہر معاملے کا حل عدلیہ نہیں۔ آئین نے منتخب نمائندوں کیلئے آرٹیکل 62 اور 63 اوردیگر آرٹیکلز کے علاوہ انتخابی قوانین میں بھی شرائط و ضوابط طے کردی ہیں۔ اگر اس کے علاوہ اراکین اسمبلی کیخلاف کسی کو شکایت ہے تو اس کیلئے پارلیمنٹ کا دروازہ ہی کھٹکھٹانا چاہئے۔ درخواست گزاروں کے وکلاء نے استدعا کی کہ انہیں تیاری کیلئے مزید مہلت دی جائے۔ آئندہ سماعت پر وہ اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ قانون کے تحت دلائل دینگے جس پر عدالت نے انتخابی اصلاحاتی ایکٹ کیخلاف درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مزید سماعت چودہ نومبر تک ملتوی کر دی۔ فاضل عدالت نے درخواست گزاروں کو مزید ہدایت کہ باقی ملکوں میں قوانین کس طرح ہیں اس پر بھی ریسرچ کر کے عدالت کی معاونت کریں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...