اسلام آباد + لندن (نامہ نگار+ نمائندہ خصوصی+ وقائع نگار خصوصی) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیراعظم محمد نوازشریف پر فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فرد جرم عائد کر دی جو نوازشریف کی غیرموجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان پر عائد کی گئی۔ ظافر خان نے صحت جرم سے انکار کیا جس کے بعد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو سے شہادتیں طلب کر لی ہیں، عدالت نے کیس کی سماعت 26اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے گواہ جہانگیر احمد کو بھی طلب کرلیا، گواہ کا تعلق ان لینڈ ریونیو سے ہے۔ جج محمد بشیر نے فرد جرم پڑھ کر سنائی جس کے بعد ظافر خان کے دستخط لئے گئے جبکہ عدالت اس ریفرنس میں نامزد دو دیگر ملزمان حسین نواز شریف اور حسن نوازشریف کو مفرور قرار دے چکی ہے۔ فرد جرم میں کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنی کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم 2007ءسے 2014ءتک اس کمپنی کے ڈائریکٹر رہے اور اس سے تنخواہ وصول کرتے رہے۔ حارث سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگ لمیٹڈ، کوئنٹ ایڈن اور کوئنٹ سلون لمیٹڈ کے علاوہ 15آف شور کمپنیاں ہیں، سابق وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے۔ نوازشریف کے 1990ءسے 1995ءتک اثاثوں کا بھی فرد جرم میں ذکر ہے۔ فرد جرم میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے حسن اور حسین نواز کے نام یہ اثاثے بنائے تھے اور خود کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز کے طور پر ان کی نگرانی کس طرح کرتے تھے۔ نواز شریف کو متعدد مواقع دیئے گئے لیکن انہوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے‘ اثاثوں کی قانونی حیثیت ثابت نہیں کی گئی‘ فرد جرم میں واجد ضیاءکی سربراہی میں قائم چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے نوازشریف کے بیان کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں نوازشریف نے جو بیانات دیئے اور جواب دیئے، ان کا متن بھی فردجرم میں شامل کےا گیا ہے کہ نوازشریف سرکاری عہدے رکھنے کے ساتھ آف شور کمپنیوں میں ڈائریکٹرز بھی رہے اور شیئر ہولڈر بھی رہے اور انہوں نے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ظاہر نہیں کیں۔ آف شور کمپنیوں سے آمدن بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ نوازشریف کے صاحبزادوں کو بھی شیئر ہولڈرز میں رکھا گیا حالانکہ وہ نوازشریف کی ہی زیرکفالت تھے اور ان کی اپنی کوئی آمدن نہیں تھی۔ فرد جرم کے مطابق جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ریکارڈ میں بھی تضاد ہے۔ ظافر خان نے تمام الزامات پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا کیونکہ سپریم کورٹ کا مانیٹرنگ جج پوری کارروائی کو مانیٹر کر رہا ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا موقع دیا جائے گا، اب تو چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا کہ تمام کیسز چھ ماہ میں نمٹنے چاہئیں، کل ٹی وی پر چیف جسٹس کا بیان دیکھا تھا۔ عدالت نے نیب سے تمام شہادتیں اور گواہیاں طلب کر لی ہیں جن کی بنیاد پر نوازشریف کو سزا دی جا سکتی ہے، کیس کی سماعت کے دوران نوازشریف کے نمائندے کے سوا (ن) لیگ کا کوئی رہنما عدالت میں موجود نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور عزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں فرد جرم عائد کی جا چکی جبکہ مریم نوازشریف اور کیپٹن (ر) محمد صفدر پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں فرد جرم عائدکی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ میاں نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسین نواز، حسن نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پر سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی کے پانامہ فیصلہ کی روشنی میں نیب کی جانب سے تین ریفرنسز دائر کئے گئے تھے۔ نوازشریف کے صاحبزادوں کو بھی شیئر ہولڈرز میں رکھا گیا حالانکہ وہ نوازشریف کی ہی زیرکفالت تھے اور ان کی اپنی کوئی آمدن نہیں تھی۔ جج محمد بشیر نے دوران سماعت ریمارکس دئیے ملزموں کو شفاف ٹرائل کا موقع دیں گے۔ ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوتا اور کہا جاتا ہے انصاف نہیں ہو رہا۔ فرد جرم کے متن کے مطابق 1989ءاور 1990ءمیں حسن اور حسین نواز شریف کی زیرکفالت تھے جس کے دوران ان کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنائی گئیں۔ وکلاءکے پینل کے ایک نمائندے نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے عدالت میں دلائل دیئے اور تیسرے ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے فرد جرم عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے وکلاءعدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں اور کیس کے ٹرائل کو رکوانا چاہتے ہیں۔ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ملزمان اپنے اثاثوں کے ذرائع ثابت کرنے میں ناکام رہے‘ کرپشن کے مرتکب پائے گئے‘ سزا کے مستحق ہیں۔ دریں اثناءسابق وزیراعظم نوازشریف کی وطن واپسی کا شیڈول ایک بار پھر تبدیل ہوگیا۔ وہ اب 24 اکتوبر کو لاہور پہنچیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نوازشریف 23 اکتوبر کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 758 کے ذریعے لندن سے وطن واپسی کے لئے روانہ ہوں گے۔ نوازشریف کے سیکرٹری حنیف خان بھی ان کے ہمراہ پاکستان آئیں گے۔ قبل ازیں سابق وزیراعظم نوازشریف کا 22 اکتوبر کو پاکستان واپس آنے کا پروگرام تھا۔