نہ منہ چھپا کہ جیئے ہیں نہ سر جھکا کر جیئے
ستم گروں کی نظر سے ، نظر ملا کر جیئے
ہم اگر کم جیئے ایک شب تو حیرت کیا
ہم ان کے ساتھ جیئے جو مشعلیں جلا کر جیئے
عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2018 لاہور 13، 14 اکتوبر کے موقع پر لکھی گئی قلمی کاوش قارئین کی نذر …آج ہم جس شخصیت کے حوالے سے بات کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں وہ اپنی ذات اور صفات میں ایسی ہمہ جہتی شخصت تھی کہ میرا انسان ناشناس معاشرہ اس کے نام اور کام کو ابھی تک سمجھ ہی نہیں پایا۔ میں صرف اتنا کہوں گی کہ آنیوالا مورخ جب کبھی اس بنجر معاشرے پر قلم اٹھائے گا تو زرخیزی کی علامت میں سے ایک عاصمہ جہانگیر کو نظر انداز نہ کر سکے گا۔ ان کی شخصت کے بارے میں اتنا ہی اگر کہہ دیا جائے کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر اسم با مسمہ تھیں تو یہ غلط نہ ہو گا۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ مغلیہ سلاطین میں سے جہانگیر کا دور عدل و انصاف کے درخشندہ و تابندہ عہد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور عاصمہ جہانگیر جنگل راج کے اس معاشرے میں انسانیت کی علمبردار ایک ایسی للکار تھی جس سے وقت کے ظل الٰہی لرزہ بدالزام رہتے تھے اور لاٹھی گولی کی سرکار کا کوئی حربہ ان کے آ ہنی عزم ، حریت فکر، انسان دوستی اور طبقاتی استحصال پر حملہ زن ہونے اور روایات شکن رویے کو کسی طرح زیر نہ کر سکا۔ میں سمجھتی ہوں کہ وکالت میں زوال اس وقت شروع ہوا جب یہ ’’فن‘‘ یعنی ’’آرٹ‘‘ سے نکل کر پیشہ یعنی ’’پروفیشن‘‘ بن گیا۔ پیشہ وارانہ رویے اور مصلحتیں وکالت کے مزاج سے لگا نہیں کھاتے چونکہ بحیثیت وکیل ہر سطح پر جبر و استبداد کے خلاف ایک طاقتور للکار بن کر مظلوم کی ڈھال بننا لازم ہے اور ایسے میں ریاستی جبر و استبداد کی طرف سے عطاشدہ تمغوں کو زخموں کی صورت میں اپنے لہو لہو بدن پر سجانا کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں مگر عاصمہ جہانگیر نے جس جرات ، ،پامردی اور استقلال سے ارض وطن پر چھائے مفاداتی بادلوں کے اندھیروں کو چیر کو امید ، حوصلے اور ولولے کے چراغوں کو اپنے لہو کا تیل پیش کیا۔ اسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
ایک عورت ہونے کے ناطے صنفی امتیاز اور استحصال کی مذموم خواہشوں کو مذہبی جوازیت اور سند عطا کرنے کے لئے جس طرح احکامات شریعت کو غلط انداز میں تشریح و تعبیر کی آڑ میں استعمال کیاجاتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اچھی مائیں ہی اچھی قوم تیار کرنے کی ابتدائی درسگاہ ہیں اور حوالے سے میں مناسب سمجھتی ہوں کہ نبی مکرمؐ سرکار دو عالمؐ کے معروف زمانہ قول کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘‘ کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس فرمان رسولؐ کی جہاں ایک طرف معانی ماں کی اطاعت و خدمت گزاری ہیں وہیں ماں کو اپنی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ یہ ماں ہی ہے جو اپنی راست تربیتی کے ذریعے اپنی اولاد کو جنت کے دروازے تک پہنچا سکتی ہے اور پھر اس کا مقدر اور نصیب کہ وہ خود کو داخل جنت ہونے کا حقدار بناتی ہے کہ نہیں۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اس مبنی بر جہالت جنسی استحصال کے خلاف ایک موثر اور موقر آواز تھیں جن کی خدمات آنیوالی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہیں محترمہ عاصمہ جہانگیر کو بہترین خراج عقیدت پیش کرنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محترمہ کے کام کو پروان چڑھا کر ایک خوشحال اور باوقار معاشرے کو عملی شکل دی جائے۔ جہاں انسان دشمنی اور طبقاتی استحصال کی ہر کوشش اور سوچ اپنی موت آپ مر جائے۔ میں پوری کشمیری قوم کی جانب سے عاصمہ جہانگیر صا حبہ کو خراج عقیدت پیش کروں گی کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ہمیشہ موثر انداز سے نمائندگی کی۔انہوں نے اپنی زندگی بھر پور انداز سے گزاری جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی یا بلا تفریق کسی کی بھی حق تلفی ہوتے ہوئے دیکھی تمام مصلحتوں سے بالا تر ہو کر اس کے خلاف آواز بلند کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے داعی اجل کو لبیگ کہنے کے بعد جب ان کی صاحبزادیوں سلیمہ جہانگیر ایڈووکیٹ اور منیزے جہانگیر نے ان کی Legacy کو جاری رکھنے کے لئے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا انعقاد کیا اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر مکتبہ فکر اور خصوصاً وکلاء سے رابطہ کیا تو بڑی تعداد میں بین الاقوامی برادری، ملک بھر کے وکلاء، صحافیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے لبیک کہتے ہوئے بھر پور انداز سے شرکت کی اور عاصمہ جہانگیر صا حبہ کی خدمات ان کی پیشہ وارانہ مہارت، ان کے دبنگ اور دلیرانہ انداز کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر یو این وویمن بھی خراج تحسین کی حقدار ٹھہری۔ جنہوں نے اس کانفرنس کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بحیثیت خاتون، ماں، بیٹی اور وکیل ہم میں سے ہر ایک عاصمہ جہانگیر کا وارث اور جانشین ہے۔ ہم ان کی صاحبزادیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہوئے ان کے نام کو زندہ رکھنے اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ وہ مضبوط و توانا آواز ہمارے درمیان ہمیشہ گونجتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا کرے اور محترمہ عاصمہ جہانگیر کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔
وہ شب وہ چاندنی وہ ستارے چلے گئے
آئے تھے ساتھ ان کے وہ نظارے چلے گئے
شاید دوبارہ کبھی بھی نہ آ سکیں
وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے