شہباز شریف کا فکر انگیز خطاب

جمشید چشتی
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا دبنگ خطاب بہت فکر انگیز اور پُرتاثیر تھا ۔ انہوں نے حکومت اور نیب پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی سے لے کر ان (شہباز شریف ) کی گرفتاری تک نیب نے مسلسل شریف فیملی اور نون لیگ کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ نیب اگر متحرک نظر آ رہی ہے توصرف اور صرف نون لیگ کے رہنمائوں کی حد تک ۔ پی ٹی آئی کے کسی ایک رکن کو بھی ایک تک نیب نے طلب بھی نہیں کیا۔ حالانکہ پرویز خٹک ، زلفی بخاری ، بابر اعوان اور خود عمران خان پر کرپشن کے مختلف اور شدید نوعیت کے مقدمات نیب میں زیر التواء ہیں اور یہ التواء اس قدر طویل ہوتا جا رہا ہے کہ نیب کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوگئی ہیں ۔
جہاں تک میاں شہباز شریف کی اچانک گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ بات قابل حیرت ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے کہ بغیر کرپشن کے کسی ثبوت کے محض ایک مفروضے کی بناء پر اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرکے جیل کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایسے حالات تو کسی مارشل لاء کے دور میں بھی نظر نہیں آتے ۔ دنیا کے کسی قانون میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی شخص کو محض کرپشن کے الزام اور مفروضے پر گرفتار کرکے ایسے سیل میں پھینک دیا جائے جہاں قاتلوں اور دہشت گردوں کو رکھا جاتا ہے۔ نیب ایک تفتیشی ادارہ ہے اس کے اختیارات کی ایک حد مقرر ہونی چاہیے۔ یوں بھی یہ ایک ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا ادارہ ہے جو صرف اور صرف سیاست دانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کام کر رہا ہے جب تک تفتیش مکمل نہ ہو جائے اور جرم ثابت نہ ہو جائے تب تک گرفتاری کا عمل سوائے انتقام کے کیا کہلا سکتا ؟ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو سرے سے کسی کو بھی گرفتار کرنے کا اختیار ہونا ہی نہیں چاہیے۔ نیب جب کرپشن کا جرم کسی پر ثابت کر لے تو سمن جاری کروانے کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کرے ۔ اگر جج ساری فائل کا مطالعہ کرنے کے بعد مناسب سمجھے تو گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے اور اگر تفتیش میں کوئی کمزوری اور کوتاہی پائے تو اعتراض لگا کر فائل واپس نیب کے حوالے کر دے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے قانون سازی کرنا پڑے گی۔موجودہ حکومت کو بھی سوچنا چاہئے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ کل کو ان کی باری بھی آنے والی ہے۔ آئین میں نیب کے اختیارات سے متعلق ترمیمی بل حکومت خود پیش کرے تو بہت اچھا ہے۔ ورنہ یہ نیک کام اپوزیشن کو مل کر کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس وقت نیب عزت داروں کی پگڑیاں اچھالنے اور خصوصاً سیاست دانوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے کچھ نہیں کر رہا بلکہ الٹا اساتذہ جیسی قابل احترام شخصیات کو ہتھکڑیاں لگا کر ان کی تذلیل کر رہا ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں اور چیف جسٹس نے بھی اس حرکت پر ازخود نوٹس لے کر نیب کی کھچائی کی ہے۔
حکومت کے آتے ہی اپنی انتقامی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ ابھی صرف نون لیگ کے اراکین کی باری ہے نجانے ابھی اور کس کس کی گرفتاری عمل میں آنے والی ہے۔ کیونکہ عمران نیازی نے پچاس لوگوں کی بات کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ پچاس کے پچاس لوگ نون لیگ سے وابستہ ہونگے۔ جن میں سیاستدان، بیورو کریٹ اور تاجر وغیرہ شامل ہوں ہے۔ دوسری طرف حکومت نے مہنگائی کا جو طوفان برپا کیا ہے اس سے غریبوں کی چیخیں نکل گئی ہیں فواد چودھری کہتے ہیں کہ ابھی ہم مزید چیخیں نکلوائیں گے تو عرض ہے کہ غریب لوگ تو پہلے ہی چیخ رہے ہیں اب کیا انکی مزید چیخیں نکلوائی جائینگی؟بجلی کے نرخوں میں گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اور کھانے پینے کی اشیاء کے داموں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس پر بلاول بھٹو کو بھی بولنا پڑ گیا اور انہوں نے کہا کہ عوام اس حکومت کو پانچ برداشت نہیں کرینگے۔ بلاول بھٹو نے شہبازشریف کی گرفتاری کو بھی حکومتی انتقام قراردیا اور یہ بھی کہا کہ حکومت نیب پر دبائو ڈال کر اپنی انتقامی کارروائیاں مکمل کر رہی ہے۔ اب وقت ہے نون لیگ، پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں نیب کے اختیارات محدود کرنے کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں لے آئیں امید ہے کہ اس بل کی حمایت میں بہت سے حکومتی ووٹ بھی شامل ہوجائیںگے اور ایک آمرانہ ادارے کے ہاتھ پائوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے گی تاکہ فسطائیت کا خاتمہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن