’’گذشتہ خرد برد کے معاملات اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘

دفتری امور سے متعلق برائیاں مثلاً رشوت ستانی، غبن اور چوری سب کے سب White collar crime کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اس کا تعلق ان افراد سے ہے جن کو سرکاری ذمہ داریاں دی جاتی ہیں نیز وہ لوگ جو معاشرے میں با حیثیت ہوتے ہیں اور وہ اپنی Power یعنی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں یعنی Miss use of their authority and influance یہ کھلے عام چوری یا ڈاکہ زنی سے مختلف ہے اور اس کا مقصد غیر قانونی مال و دولت جمع کرنا ہے اور اس میں حکومتی عہدیداراور کاروباری افراد شامل ہیں۔ یعنی اس امر میں تشدد کا عنصر نہیں ہوتا جس میں قتل و غارت کا استعمال ہو۔ مثلاً ہماری حکومت سالانہ 60 (ساٹھ) بلین ڈالر کی اشیا اور services خریدتی ہے جو 7.5 (سات اعشاریہ پانچ) ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ اس میں سے چوری ہونے والی رقم تقریباً 7.5 (سات اعشاریہ پانچ) ٹریلین یعنی 50% (پچاس فی صد) White collar crime کا شکار ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں بننے والے نئے ایر پورٹ پر کُل 23 (تیئس) بلین روپے کے خرچ کا تخمینہ دیا گیا تھا۔ لیکن اس پر اصل میں 100 (سو)بلین روپے خرچ ہوئے۔ یعنی 77 (ستتر) بلین زیادہ خرچ کئے گئے۔ جبکہ شوکت خانم کینسر ہسپتال صرف 4 (چار) بلین روپے میں تعمیر ہوا یعنی 77 (ستتر)بلین روپے جو غبن ہوئے اس سے شوکت خانم جیسے 19 (انیس)ہسپتال اور بن سکتے تھے۔ جو کہ ملک کے ہر حصے میں قائم ہوتے۔
قومی دولت کے ضائع ہونے کا ایک نقصان: ملک میں پیداہونے والے بچوں میں کم از کم 290,000 (دولاکھ نوے ہزار)بچے پیدائش کے ایک ماہ کے اندر اندر لقمہء اجل بن جاتے ہیں۔ نیز ملک میں 175,000 (ایک لاکھ پچھتر ہزار)بچے خواتین کی کمزوری اور ناکافی غذا کے سبب Premature birth یعنی پیٹ میں پوری افزائش نہ ہونے کے سبب مرجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک میں 53,000 (تریپن ہزار)بچے Diarrhoea یعنی اسہال کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ پانی کی آلودگی ہوتی ہے۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان پوری دنیا میں پیدا ہونے والے بچوں کے لئے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیاہے۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر میں 77 (ستتر)ملین روپے کی چوری کے حوالے سے ملک میں تعلیم کی سہولیات پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔ مثلاً Citizens foundation جو کہ ملک کا سب سے بڑا غیر تجارتی بنیادوں پر قائم نجی ادارہ ہے جو کہ کم قیمت سے بنائے جانے والے نجی اداروں اور کم قیمت سے بنائے جانے والے سکولوں کی تعمیر کا کام کرتی ہے۔ وہ ایک پورے پرائمری سکول بنانے کا کام کرسکتی تھی۔ سکول صرف 17 (سترہ) ملین روپے میں تعمیر کرتی ہے۔ باالفاظ دیگر 77 (ستتر) ملین غبن ہونے والی رقم سے 5(پانچ) ملین بچوں کوملک میں تعلیمی ادارے مہیا کئے جاسکتے ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق جو کہ پاکستان ایجوکیشن STATICS کی طرف سے 2016-17 ء میں شائع ہوئی ہے۔اس وقت ملک میں 22.84 (بائیس اعشاریہ چوراسی) بچے سکول جانے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اس لئے وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ 77 (ستتر)بلین روپے سے 5 (پانچ)ملین بچوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے۔
ملکی وسائل کی چوری روکنے کیلئے NAB اور FIA میں چوری پکڑنے کا معیار (Rate) صرف 6.6 (چھ اعشاریہ چھ) فی صد ہے۔ 2017 ء میں کل 26551 (چھبیس ہزار پانچ سو اکاون) شکایات موصول ہوئیں ۔نیب کی طرف سے 456 (چار سو چھپن) بھیجی گئیں اور کل میں سے صرف 2(دو) فیصد چھان بین (inquiry) کی سطح تک پہنچ سکیں۔ ان465 (چار سو پینسٹھ) شکایات میں سے صرف 215 (دو سو پندرہ) کی چھان بین (investigation) ہوئی اور پھر 215 (دو سو پندرہ) میں سے صرف 112 (ایک سو بارہ)کو مجرم قرار دیا گیا اور مقدمے قائم ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیب مسائل کو حل کرنے کی اہل نہیں ہے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے مگر اس کی بنیادی ضرورت اس کی صلاحیتوں کو بہت زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں کام کرنے والے افرادمیں باصلاحیت اور جر ات مند افرادی قوت اور ایمان دار لوگوں کاچناؤ اشد ضروری ہے جو کہ اس وقت ہر ذی روح، شعبے اور ملک کی ضرورت ہے۔ ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے اور معاشی صورت حال کو سدھارنے کاواحد ذریعہ یہی ہے کہ غبن سے ہتھیائی گئی رقم کی واپسی کابندوبست کیا جائے اور اسے عوام کے ریلیف اور تعمیراتی منصوبوں پر خرچ کیا جائے۔ ناجائز حکومتی جائیدادوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔اس بارے میں کسی شک اور شبے کی گنجائش نہیں یہ دونوں ادارے اپنا کام ایمان داری اور سخت محنت سے کرنے میں مخلص ہیں۔ اس کے لیے یقینا وقت لگے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کام کے کرنے میں جو وقت درکار ہے اس دوران میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے یعنی پرانے مفقود اور گھسے پٹے اقدامات سے کام کے نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔

ای پیپر دی نیشن