لندن کی شاہراہوں پر ہزاروں ، لاکھوں افراد نے برطانیہ کے یورپی یونین سے مجوزہ انخلا(بریگزٹ)کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔انھوں نے یورپی یونین سے بریگزٹ کی کسی حتمی ڈیل سے قبل ملک میں ایک نئے ریفرینڈم کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔اس مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 2016 میں بریگزٹ پر ریفرینڈم کے انعقاد کے بعد سے یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج سے متعلق نئی پیچیدگیاں اور حقائق سامنے آئے ہیں ۔ اس لیے اب ایک نئے ریفرینڈم کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق قریبا سات لاکھ افراد نے پیپلز ووٹ مارچ میں شرکت کی ہے۔البتہ برطانوی پولیس نے مظاہرین کی تعداد کے حوالے سے کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کیے ہیں۔مارچ میں شریک لندن کے میئر صادق خان نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو چیز واضح ہے، وہ یہ کہ وزیراعظم کے پاس صرف بری بریگزٹ ڈیل یا بالکل کوئی ڈیل نہیں کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ڈھائی سال قبل جو وعدہ کیا گیا تھا،یہ اس سے لاکھوں میل دور ہے۔صادق خان کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرہ نوجوان برطانویوں کے مستقبل کیلئے مارچ ہے۔یہ ان کے لیے بھی ہے جنھوں نے 2016 میں بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا اور وہ اس وقت بہت نوعمر تھے۔برطانیہ کی حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر ماضی میں بریگزٹ پر ایک نئے ریفرینڈم کی حمایت کر چکے ہیں تاکہ عوام یہ فیصلہ کرسکیں کہ آیا وہ وزیراعظم تھریزا مے کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں یا وہ برطانیہ کی اس تنظیم میں رکنیت برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔برطانیہ کی قدامت پسند جماعت کی لیڈر تھریزا مے اس موضوع پر ایک نئے ریفرینڈم کے امکان کو مسترد کرچکی ہیں ۔تاہم بریگزٹ کے مخالفین ایک نئے ریفرینڈم کا مطالبہ کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب ووٹر پہلے کی نسبت زیادہ باخبر ہوچکے ہیں اور وہ استصواب رائے میں برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کی مخالفت کریں گے۔برطانیہ پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکل جائے گا ۔تاہم اس طلاق کے کاغذات کو ابھی حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے اور فریقین کے درمیان بہت سے امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ان میں بالخصوص جمہوریہ آئیرلینڈ اور شمالی ائیرلینڈ کے درمیان مستقبل کا سرحدی مسئلہ سب سے نمایاں ہے۔بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے ساتھ برطانیہ کی یہ واحد زمینی سرحد ہوگی کیونکہ جمہوریہ آئیرلینڈ تو یورپی یونین کا حصہ رہے گا جبکہ شمالی آئیرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔یادرہے کہ شمالی آئیرلینڈ میں کئی عشروں سے جاری مسلح شورش کے خاتمے کے لیے 1998 میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔اس کے تحت آئیرلینڈ کے ساتھ واقع شمالی آئیرلینڈ کے سرحدی علاقے میں پولیس اور فوج کی تعیناتی ختم کردی گئی تھی ۔اب سرحد کے دونوں اطراف کے بہت سے لوگ ایک مرتبہ پھر سخت بارڈر یعنی مسلح فورسز کی تعیناتی نہیں چاہتے ہیں۔