متحدہ اپوزیشن نے منگل کو بھی ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس چلانے نہیںدیا۔ متحدہ اپوزیشن حکومت پر چھائی رہی۔ منگل کو حکومت نے پی ٹی آئی کے ارکان ہنگامی پیغام کے ذریعے قومی اسمبلی میں موجود ہونے کی ہدایت کی لیکن 90 حکومتی ارکان ہی ایوان میں حاضر ہوئے جب کہ حکومتی ارکان کی ایک بڑی تعداد ایوان سے غیر حاضر تھی۔ 90ارکان کی موجودگی سے ایوان میں کورم کا مسئلہ تو پیدا نہیں ہوا تاہم اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کر کے ڈپٹی سپیکر کو ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی۔ ڈپٹی سپیکر نے عاجز آکر قومی اسمبلی کا اجلاس دو روز کے لئے ملتوی کر دیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف کو بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کے رہنما رانا تنویر حسین اور مرتضی جاوید عباسی احتجاج کا آغاز ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کر لی اپوزیشن نے ایوان سے واک آئوٹ کر دیا ، اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً ایجنڈے پر موجود اپنے بل پیش نہ کئے ، منگل کو بھی اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ منگل کو اپوزیشن کے ارکان ایوان میں مسلسل سیٹیاں بجاتے رہے۔ پیپلزپارٹی اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے منگل کو ایوان بالا کے اجلاس سے آئی لینڈز سے متعلق آرڈیننس پارلیمان میں پیش نہ کرنے پر علامتی واک آئوٹ کیا اور قائد ایوان کی طرف سے اس معاملے پر ایوان میں جواب دینے کے دوران احتجاج کرتے ہوئے کورم کی نشاندہی کر دی۔ کورم پورا نہ ہونے پر چیئرمین سینٹ نے اجلاس ملتوی کر دیا۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وفاق کو صوبوںکے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس آرڈیننس کو خفیہ رکھا گیا ہے، پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا جس سے میرا بطور رکن استحقاق مجروح ہوا ہے۔ سینٹ کا اجلاس جمعرات کی شام چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔