دلیر ندیم افضل چن، بہترین جہانگیر ترین اور مشتاق مہر کے بعد بلاول کی چھٹی؟

Oct 21, 2020

محمد اکرم چوہدری

سیاسی، عوامی افراد کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ عوامی مسائل پر دکھی ضرور ہوتے ہیں اور ہر وقت جی حضوری کے بجائے عوامی مسائل پر کھل کر خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ غیر سیاسی افراد کا ایجنڈا کچھ اور ہوتا ہے ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا نہ انہیں عوامی مسائل میں دلچسپی ہوتی ہے وہ کسی خاص مقصد کے تحت آتے ہیں، وقت گذارتے ہیں ذمہ داری نبھاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں وفاقی حکومت میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔ ایسے افراد جن کا عوام سے براہ راست کوئی رابطہ یا واسطہ نہیں ہے نہ وہ عوامی مسائل سے واقف ہیں، نہ انہیں دھنیا پودینہ اور ادویات خریدنا پڑتی ہیں سو انہیں فرق بھی نہیں پڑتا، نہ انہیں عام آدمی کی طرح آٹے، چینی اور دودھ کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ان حالات میں کہیں کہیں عوامی سیاست کرنے والے سیاسی کارکن اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی امور برائے پارلیمانی تعاون ندیم افضل چن نے سیاسی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابینہ کے اجلاس میں چینی مہنگی ہونے پر آواز بلند کی انہوں نے انکوائری کمیشن کو چینی مہنگی ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ شہزاد اکبر چینی مافیا کے خلاف انکوائری کے نام پردھوکہ دیتے رہے۔ ندیم افضل چن کے اس بیان کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ان کے اس بیان پر ایک الگ انکوائری ہونی چاہیے کیونکہ گذشتہ ایک برس میں اشیاء  خوردونوش کی قیمتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کسی گہری سازش سے کم نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود بھی مصنوعی مہنگائی کا ذکر فرماتے رہتے ہیں ان کے وزراء بھی مہنگائی کو خود ساختہ قرار دیتے ہیں ندیم افضل چن کے اس بیان کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر یہ مہنگائی مصنوعی اور خود ساختہ ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ چینی کی قیمتوں کے حوالے سے ہونے والے تمام اقدامات اس بیان کے بعد مشکوک ہوئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے یہ انکوائری کی ہے وہ اس کاروبار، اس کی باریکیوں اور تکنیکی چیزوں سے ناواقف ہیں نہ انہیں کوئی کاروباری تجربہ ہے۔ ان کی موجودگی میں ایسی کسی بھی انکوائری کا یہ حال ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اسی کمیشن کی وجہ سے جہانگیر خان ترین کی پاکستان تحریکِ انصاف میں پوزیشن خراب ہوئی بلکہ یہ کہا جائے کہ انہیں جماعت سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو بھی غلط نہ ہو گا۔ جہانگیر خان ترین زراعت کے حوالے سے تمام معاملات ہر گہری نگاہ رکھتے ہیں وہ اس کی باریکیوں سے بھی واقف ہیں اور اس میں نئے رجحانات کو بھی فروغ دے سکتے ہیں وہ اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود جہانگیر ترین کو اس انداز سے الجھایا گیا کہ وہ آج باہر بیٹھے ہیں اور عمران خان سے خاصے دور ہو چکے ہیں۔ ان کی دوری صرف ایک سیاست دان کی اپنی جماعت سے علیحدگی نہیں ہے بلکہ عمران خان ایک مخلص دوست سے بھی محروم ہوئے ہیں۔ یہ ساری کارروائی باقاعدہ سازش معلوم ہوتی ہے۔ اگر جہانگیر ترین کے کاروبار میں بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں تو ا نہیں قانون کے مطابق دیکھا جانا چاہیے لیکن ان کے کاروبار کو سیاسی ہدف یا ان کی سیاست کو ہدف بنانا مناسب نہیں تھا۔ وہ ان معاملات کو آزادانہ دیکھ رہے ہوتے تو کسی حد تک بہتر اور مثبت کردار ادا کر سکتے تھے۔ ندیم افضل چن کے اس بیان کے بعد وزیراعظم عمران خان کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان کے اردگرد کون ہے جو ایسے مشورے دیتا ہے یا ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہتا ہے کہ پارٹی کے مخلص افراد کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ 
ندیم افضل چن نے احتساب و داخلہ کے مشیر شہزاد اکبر سے کہا کہ آپ نے اچھی انکوائری کی ہے چینی سستی ہونے کی بجائے مہنگی ہوگئی، اگر انکوائری کے بعد چینی سستی نہیں ہونی تھی تو پھر لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دلیر اور بہادر سیاسی کارکن ندیم افضل چن نے  کہا کہ چینی اور گندم  سستی ہو سکتی ہے۔ متعلقہ حکام میرے ساتھ بیٹھ جائیں۔ دیکھتا ہوں کہ گندم اور چینی کیسے سستی نہیں ہوتی۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے یا خود ساختہ یا پھر یہ حقیقی ہے۔ ہر صورت اس کی ذمہ داری متعلقہ وزراء اور وزیراعظم عمران خان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ ندیم افضل چن نے ہمارے لکھے گئے درجنوں کالموں کی تائید کی ہے ہم ملک و قوم کے وسیع مفاد اور عام آدمی کی مشکلات کے پیش نظر مہینوں سے کہہ رہے کہ اگر کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مارکیٹ کا رجحان کیا ہے، مارکیٹ کو قابو کیسے کرنا ہے مارکیٹ کے مسائل کیا ہیں تو تشریف لائیں سمجھائے دیتے ہیں کوئی قدم تو اٹھائے، عوام کی مشکلات کا ارادہ تو کرے لیکن کسی کو اثر نہیں ہوا نتیجہ یہ ہے سبزیوں نے سینچریوں سے کم پر ملنا بند کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریب دو ایسے غیر سیاسی و غیر عوامی افراد موجود ہیں جن کا نہ عوام سے کوئی تعلق ہے، نہ ان کا عام آدمی کے مسائل سے کوئی تعلق ہے، نہ ان کا کوئی بڑا کاروبار ہے لیکن ان کے مشوروں سے لگتا ہے کہ نہ انہوں نے کسی کا کاروبار رہنے دینا ہے نہ انہوں نے کوئی عام آدمی کو سکون سے رہنے دینا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے تمام تر خامیوں اور غلط مشوروں کے باوجود وزیراعظم ان پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے کیس اور ندیم افضل چن کے ان بیانات کے بعد بھی اگر حقائق سامنے نہیں آتے تو مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں بہت سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ وزراء نے اشیاء  خوردونوش کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور وزیراعظم عمران خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے تو آٹے کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں ہو رہی۔ وزیراعظم عمران خان کے اس سوال کے بعد یقیناً وزراء  نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ذمہ دار کو ڈھونڈ نکالنے کا وعدہ کیا ہو گا یہ نعرہ لگاتے ہوئے اجلاس سے نکلے ہوں گے کہ سب پھڑے جان گے، سب پھڑے جان گے۔ بہرحال ندیم افضل چن نے ایک حقیقی سیاسی کارکن ہونے کا حق ادا کیا ہے انہوں نے واضح الفاظ میں وزیراعظم کے سامنے گذشتہ ڈیڑھ برس میں کھیلے جانے والے کھیل کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ اس دلیرانہ موقف پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مہنگائی پر صرف تشویش کا اظہار کرنے والی کابینہ کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے خود مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے کتنا کام کیا ہے، بدقسمتی سے کسی کے پاس کچھ نہیں ہے تبھی تو آج عام آدمی کو پوچھنے والا کوئی نہیں اس کے لیے دال اور آلو خریدنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب حکومت نے بچت بازاروں میں عوام کو خوار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کئی مہینوں سے مہنگائی سے بدحال عوام کو اب بچت بازاروں کے نام پر لوٹا جائے گا حکومت بھی تیار رہے کیونکہ انہی بچت بازاروں میں میڈیا ہر وقت بدانتظامی رپورٹ کرے گا، حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کو ریلیف بھی نہیں ملے گا اور حکومت کی ساکھ مزید خراب ہو گی کیونکہ میڈیا کو تو غلطیوں کا انتظار ہے اور اسے لوگوں کے روتے پیٹتے مہنگائی پر چیختے ہر حال میں دکھانا ہے اس طریقے سے حکومت خرچہ بھی کرے گی اور بدنامی بھی مول لے گی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے ان بچت بازاروں سے کئی لوگ بازار جانے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ کئی اہم افراد کے کئی گھر بھی بن جائیں گے۔ عوام کو آلو کھلاتے کھلاتے وہ کس حد تک اپنے لیے چپس کی فیکٹریاں بنا لیں گے۔ عام آدمی کو ان بازاروں سے کچھ بچے یا نہ بچے لیکن یہ طے ہے وہ اہم افراد جن کی رسائی ہے اس منصوبے سے بہت کچھ بچا لیں گے اور شاید یہ سارا منصوبہ بھی کچھ نا کچھ بچانے کے لیے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔
آئی جی سندھ مشتاق مہر نے دو ماہ کی رخصت پر جانے کا فیصلہ کیا ہے ان کے اس فیصلے کے بعد سندھ پولیس کے کئی افسران بھی اس فہرست میں شامل ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی کی رہائش گاہ  کادورہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا ہے۔ آئی جی سندھ کی چھٹی پر جانے اور ان کے اس فیصلے کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری کو فون بھی کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کراچی کو اس معاملے کی تحقیقات مکمل کرنے اور تمام حقائق کو سامنے لاتے ہوئے فوری طور پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 
آئی جی سندھ کے بعد خدشہ ہے کہیں بلاول بھٹو زرداری بھی چھٹی پر نہ چلے جائیں اگر وہ چھٹی پر گئے تو یقیناً دو ماہ کی چھٹی نہیں ہو گی بلکہ یہ رخصت طویل بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے غلط فیصلوں کا خمیازہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سندھ کی حالت ڈھکی چھپی نہیں، سندھ حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے جلسے جلوسوں میں مصروف ہے۔ عوام خوار ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسوں میں الجھی ہوئی ہے۔ کراچی میں گرمی پڑے یا بارش آئے، اشیاء  خوردونوش کی قیمتیں بڑھیں یاپھر دودھ نایاب ہو جائے ہر ناکامی پر فوج مدد کرتی ہے۔ عوامی خدمت کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی اتنی ہی اہل سیاسی جماعت ہے تو پھر سندھ کی حالت کیوں نہیں بدلتی، کراچی کے دیرینہ مسائل حل کیوں نہیں ہوتے۔ بلاول بھٹو زرداری شکایتیں ضرور لگائیں لیکن اپنی حکومت کی کارکردگی پر بھی توجہ دیں۔ ویسے بھی ان کا ن لیگ کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ کب تک یہ غیر فطری اتحاد قائم رہتا ہے۔ اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن ان دونوں مفاد پرست جماعتوں کا ساتھ مل کر چلنا مشکل ہے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ٹرتھ کمشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے اس تجویز کی ہر جگہ حمایت اور پذیرائی ہونی چاہیے کیونکہ معاشرے میں جس حساب سے جھوٹ بولا جاتا ہے ایسے کمشن کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم دل کھول کر یا تھوک کے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں۔ حکمران جھوٹے وعدے کرتے ہیں، عوام ان وعدوں کی امید پر زندگی گذار دیتے ہیں لیکن ہھر بھی وہ ان وعدہ خلافی کرنے والوں کو چھوڑتے نہیں بلکہ ان کا ساتھ دیتے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی ساری سیاست پر ٹرتھ کمشن بننا چاہیے اور ان کے سیاسی کیرئیر کا مکمل نچوڑ نکالنا چاہیے تاکہ حقیقت عوام کے سامنے آ سکے۔ ہمیں کسی معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف ٹرتھ کمشن کی اس تجویز پر کیا جواب دیتے ہیں۔

مزیدخبریں