فوج کو عزت دو

Oct 21, 2020

نورین فاروق ابراہیم

ہر محب وطن پاکستانی فطری طور پر افواج پاکستان سے محبت کرتا ہے ۔ پاک فوج کے جوان بغیر کسی دنیاوی مفاد اور غرض کے دفاع وطن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔ جسم  جھلسا دینے والی گرمی اور لہو جمادینے والی سردی میں اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں ۔حب الوطن کا جذبہ لہو بن کر ان کے جسموں میں دوڑتا ہے ۔ کئی مہینے اپنے اہل و عیال سے دور رہ کر سرحدو ںکی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔ دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں جب عام آدمی شدید مجبوری میں بھی گھر سے باہر نکلنے سے قبل سو بار سوچتا ہے،ہمارے جوان عوام کی حفاظت کے لیے سینہ تان کر پہرہ دیتے ہیں ۔ ہمارے جوان جاگتے ہیں تو ہم سکون کی نیند سوتے ہیں ۔ 
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد جب امریکا بہادر اپنے لاؤ لشکر سمیت افغانستان پر نازل ہو اتو تباہی و بربادی اس خطے کا مقدر تھی ۔ ا س جنگ کی تپش پاکستان میں بھی محسوس کی جانے لگی ۔ سب سے پہلے جنرل مشرف پر خود کش حملے ہوئے اورپھر عوامی اجتماعات کو نشانے پردھر لیا گیا ۔ صبح و شام دھماکے ہونے لگے، مسجدوں اور بازاروں میں بم پھٹنے لگے،چوکوں ، چوراہوں اور درگاہوں میں خون کی ندیاں بہنے لگیں ۔قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم ہوا کہ جس کے اثرات ہمارے گھرو ں تک آپہنچے ۔زیادہ وقت نہیں گزرا جب ہمارادشمن سوات پر قبضہ کر چکا تھا اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔دارالحکومت میں انتشار پھیلانے کے لیے تمام ممکنہ حربے آزمائے جارہے تھے ۔کراچی کی روشنیاں گل کر دی گئی تھیں اور کوئٹہ کا امن معدوم ہوچکا تھا ۔ لاہور شہر میں ایک ہی دن آٹھ بم دھماکے کر کے سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو جاں بحق کردیاگیا۔ملک بھر کے عوام کے ذہنوں پر دہشت گردوں کا خوف طاری تھا۔ اور پھر ہماری عسکری قیادت نے پے درپے ایسے کامیاب آپریشن کیے جن کے نتیجے میں دہشت گردوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کے ٹھکانے تباہ کردیے گئے ۔ پاکستان نے جنگی تاریخ کے مشکل ترین گوریلامحاذپر دشمن کا مقابلہ کیا ہے ۔ عسکری امور کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ کا مقابلہ نہایت کٹھن ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ دشمن نامعلوم ہوتا ہے اور عوام کے روپ میں ہمارے درمیان موجود رہتا ہے ۔ وہ کسی بھی وقت کہیں سے بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔اس چھپے ہوئے دشمن کوتلاش کرکے منطقی انجام تک پہنچانا ناممکنات میں سے ہوتا ہے ۔ دشمن کی ٹریننگ بھی دشمن ممالک کے خفیہ اداروں نے کی ہوتی ہے لہذاوہ تمام دفاعی پہلوؤں کو بخوبی سمجھتا ہے۔ ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے پاکستان کی بہادر افواج نے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر نہ صرف اپنے بدترین دشمن کو شکست دی بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پرڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر ہماری بہادر افواج کسی بھی کوتاہی کا مظاہرہ کرتیں تو آج پاکستان کا حال شام ، عراق اور لیبیا جیسا ہوتا۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے نتیجے میں پاکستان دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکتا ہے ۔ 
 ہمارا دشمن اس بات کو بخوبی سمجھتاہے کہ وہ میدان جنگ میں ہمیں شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ ا س کا ایک مظاہرہ گزشتہ سال ابھی نندن کی صورت میں ہوچکا ہے ۔ ہماری افواج بہترین تربیت اور دفاع وطن کے بھر پور جذبوں سے لیس ہیں ۔ ان کے نزدیک وطن کا دفاع ایک دینی اور قومی فریضہ ہے ۔ ان کے قلوب و اذہان جہاد فی سبیل اللہ کے جذبات سے لبریز ہیں ۔ پاکستان کے عوام اپنی افواج کو مجاہدان بت شکن اور غازیان شعلہ نوا کے روپ میں دیکھتے ہیں ۔ چنانچہ ہر پاکستانی افواج پاکستان سے گہری عقیدت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس! اب اس عقیدت و محبت کے رشتے کو پامال کرنے لیے کچھ سیاسی بزرجمہر میدان میں اتر آئے ہیں ۔ آئے روز کے سیاسی اکھاڑوں میں افواج پاکستان پر طنز کے نشتر برسانا ایک معمول بن چکا ہے ۔ جس پر بدعنوانی اور اقربا پروری کے بے تحاشا مقدمات درج ہیں، وہ بھی فوج پر تبرا پڑھ کر انقلابی اور جمہوریت پسندی کا ڈھونگ رچا رہا ہے ۔ شومئی قسمت! مصنوعی قیادت کا بازار گرم ہے۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے خود ساختہ لیڈران کرام عوام کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ جنھیں کارزارِ سیاست کے بجائے مداری کے کھیل میں تماشا گر ہونا چاہیے، وہ عوامی نمائندگی کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جو بولنے کا ہنر نہیںجانتے، لفظوں کے برتاؤکا سلیقہ نہیں رکھتے، دوسروں کی اگلی ہوئی جگالی اپنے منہ میں ڈال کر چباتے ہیں اور عوامی اجتماعات میں آئے روز خود ہی اپنا مذاق بنتے ہیں ـ‘وہ بھی لٹھ لے کر افواج پاکستان کو ہانکنا چاہتے ہیں ۔ 
سوال یہ ہے کہ عوامی اجتماعات میں کھلے عام افواج پاکستان کی اعلی قیادت کوجارحانہ تنقید کا نشانہ بنا کر کن مقاصد کا حصول درپیش ہے؟ کیا جمہوریت صرف فوج کو لتاڑنے کا نام ہے؟جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے، سیلاب آتاہے یا زلزلہ ۔ افواج سے مدد کیوں طلب کی جاتی ہے ؟ افواج پاکستان کا کام اگر صرف دفاع ہے تو کورونا کی وبا کو قابو پانے کے لیے ان کی مدد کیوں طلب کی گئی؟ المیہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی ہر نااہلی کو چھپانے کے لیے فوج کاآسرا اور سہارا لیتی رہی، جب فوج نے دہشت گردی اور تخریب کاری کرنے والے عنا صر کو نکیل ڈال دی تو اب اسی فوج کو مجرم بنا کر قوم کی نظروں میں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ رویہ ہر گز پسندیدہ نہیں ، یہ سمت ہر گز درست نہیں ۔
 افواج پاکستان کے سیاسی کردار پر تنقید کایہ مطلب نہیں کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی اعلی فوجی قیادت کا نام لے لے کر انھیں للکارا جائے ۔ اس سے عوام میں فوج کے خلاف نفرت اور بغض کے جو بیج بوئے جارہے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہوگا؟ 
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
ایک عام پاکستانی جو ادارہ جاتی مخاصمت کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا ،اس کے سامنے اس طرح کے بیانیے کو فروغ دینے کا مطلب تو یہ ہے کہ فوج ہی ہر مسئلے کی جڑ ہے۔ مہنگائی، لاقانونیت ، فرقہ وارانہ فسادات یا دیگر خرابیوں کی ذمہ داری فوج پر عائد ہوتی ہے۔ یہی ہمارے دشمن کا ایجنڈا ہے کہ عوام کے دلوں سے فوج کی محبت نکال دی جائے۔
پاکستان کے عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتدار کے بھوکے بھیڑیے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔  انھیںعوام کی پروا ہے اور نہ عوامی مسائل سے کوئی غرض ، انھیں صرف اپنی تجوریاں بھرنے او راپنی آئندہ نسلوں کو اقتدار کی راہ دکھانے سے دلچسپی ہے۔ انھیں تو قومی سلامتی سے بھی کوئی غرض نہیں ۔ لہذا ان ابن الوقتوں کے دھوکے میں نہ آئیں اور ان کے بیانیے کو رد کر دیں ۔ پاکستان کی افواج نے ہر محاذ پر قومی سلامتی کو یقینی بنایا ہے ۔ پاکستان کی سالمیت ، بقا اور تحفظ کی ذمہ داری پاکستان کی افواج کا فریضہ ہے، اگر ہم وطن کا دفاع چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی افواج کو عزت دینا ہوگی ۔’ فوج کو عزت دو‘کا نعرہ ایک متبادل بیانیے کے طور پر سامنے آناچاہیے۔ 

مزیدخبریں