ربیع الاول کے بابرکت مہینے کا آغازہو چکا ہے ۔ فضا میں درود سلام کی بلند ہوتی صدائیں رحمۃللعالمین سے محبت کا اعلان کر رہی ہیں ۔ اﷲ تعالی نے جب سے یہ دنیا بنائی ہے تب سے انسانیت پہ جب جب ایسا وقت آیا کہ روشنی کے چراغ مدہم پڑنے لگے ، تاریکی سارے عالم پہ راج کرنے لگی ، زندگی موت کی پناہ ڈھونڈنے لگی ،رشتوں کا احترام ختم ہونے لگا اور ہر طرف مایوسی ، ظلم ، زیادتی نے ڈیرے ڈال لئے تو ایسے اندھیروں میں امید کی کرن جاگتی رہی اور دنیا میں مختلف اوقات میں پیغمبر لوگوں کے لئے مسیحا بن کر اﷲ کا پیغام لے کر آتے رہے ۔ پیغمبروں کا وہ سلسلہ جواﷲ تعالی نے انسان کی تخلیق حضرت آدم ؑ سے شروع کر کے کیا اس کا اختتام ہمارے پیارے نبی ؐ پر ہوا ۔آپ ؐ سے پہلے پیغمبروں میں رسالت کا رنگ مخصوص اور جزوی تھا ۔ آپؐ کی شخصیت میں رسالت اپنے انتہائی رنگ سے ایسی مکمل ہوئی کہ اس کے بعد پھر کسی اور رسول کو دنیا میں بھیجنے کی ضرورت نہ رہی ۔ آپ ؐ نے اﷲ تعالی کا پیغام قرآن شریف کی صورت میں اتنا واضح اور مکمل دے دیا کہ اس کے بعد کسی اور سوال کی گنجائش ہی نہ رہی ۔
آپؐ آج سے چودہ سو سال پہلے 12ربیع الاول کے دن اس دنیا میں تشریف لائے اور یوں انسانیت کو ایک نئی معراج عطا کی گئی ۔ آپ ؐ اس دنیا کے ہر طبقے کیلئے رحمت بن کے آئے قرآن شریف میں ارشاد ہوتا ہے ’’ وما ارسلنک ا لا رحمتہ للعالمین ‘‘ کہ آپؐ تمام مخلوق کیلئے رحمت مجسم بنا کر بھیجے گئے ۔ آپؐ نے لوگوں کو محبت اور امن کا پیغام دیا ۔ انہیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا ۔ انسانیت کا درس دیا ، رواداری ، بھائی چارے اور انصاف کی تلقین کی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو بدل کے رکھ دیا ۔آپؐ کا پیغام رہتی دنیا تک ان لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھاتا رہے گا جو آپ ؐ کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھیں گے ۔
12 ربیع الاول کا دن ہر سال اب جس طرح منایا جانے لگا ہے یقین جانئیے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ موسیقی کی دھنوں پر آپ ؐ کی شان میں قصیدے پڑھنا اور غیر اسلامی رسومات کو اپنی مذہبی تقریبات کا حصہ بنا لینا کیا ہماری اپنے مذہب کے ساتھ زیادتی نہیں ہے ۔
آج ہماری مذہبی محفلوں میں رونق تو بھرپور ہوتی ہے مگر احساسات سے خالی ، دل کو خوش کرنے کا سامان بھی بہت ہوتا ہے لیکن عقیدت سے خالی ، روشنیاں تو بہت ہوتی ہیں لیکن بے نور دکھائی دیتی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس وقت جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ہزاروں لوگ راتوں کو بھو کا سوتے ہیں ، ان کے سروں پر چھت نہیں ہے ، سردی کا موسم آنے کو ہے اور تن کو ڈھانپنے کے لئے وافر کپڑے نہیں ہیں ، مائیں اپنے بچوں کے خود اپنے ہاتھوں سے گلے کاٹ رہی ہیں انہیں زہر دے رہی ہیں ۔ حرام موت کو گلے لگانے والے بڑ ھتے جا رہے ہیں ایسے کڑے وقت میں کروڑوں روپیہ صرف ظاہری نمود و نمائش اور اصراف کی نظر کر دینا کیا صریحا آپؐ کی تعلیمات کے منافی نہیں ہے ۔ اپنی مصنوعی شان و شوکت کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں ہم یہ تک بھول جاتے ہیں کہ جس پاک ہستی کی شان میں ہم یہ دن منا رہے ہیں وہ خود کتنے سادہ طبیعت کے مالک تھے ، سادگی کو پسند فرماتے اور اسی کی تلقین کرتے تھے ۔ اس دن کو آپ منانا چاہتے ہیں تو ضرور منائیں لیکن بدمست سے بچ کے سادگی اور وقار کے ساتھ ۔
آنحضرت ؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں ۔ جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے ۔ یہ دو چیزیں اﷲ کی کتاب اور میری سنت ہے ۔ مگر افسوس ہم آج ان دونوں چیزوں سے بہت دورہیں ۔ ہم حضورؐ کا جشن ولادت تو بہت زور و شور سے مناتے ہیں لیکن جب کفار ہمارے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اس وقت کیوں ہمارے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں ۔ مغربی میڈیا نے ہم مسلمانوں کیلئے اسلام کو کہیں گالی تو کہیں سزا بنا دیا ہے ۔ہماری اسلامی ریاستیں آج کل اپنے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے اسرائیل کی محبت کا دم بھرتی نظر آ رہی ہیں حالانکہ آج مغربی دنیا کی مسلمان ممالک کے خلاف سرکشی امت مسلمہ کو جھنجوڑ جھنجھوڑ کر وفائوں کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کفار کی شام ، افغانستان ، عراق ، فلسطین اور کشمیر میں بار بار یلغار ہمارے ضبط کو آزما رہی ہے ۔ مگر ہمارے مسلمانوں کے جذبات سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں ۔ نبی پاک ؐ کی تعلیمات سے روگردانی نے ہمیں پستیوں میں دھکیل دیا ہے اسی لئے ساری دنیا کے سامنے تماشا بن گئے ہیں ۔ اسلامی دنیا کے لیڈران محض اپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے مغربی ممالک کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں ۔ اپنی شناخت ، اپنے پیارے نبی کے فرمودات ، اپنی پہچان سب کہیں کھو بیٹھے ہیں ۔
12 ربیع الاول کا آنے والا دن ہم سب مسلمانوں کو اس سوچ کی دعوت دیتا ہے کہ ہم نے آپ ؐ سے محبت کا کتنا حق ادا کیا ، کیا آج ہمیں اپنا طرز عمل بدلنے کی ضرورت نہیں ۔ زندگی گزارنے کیلئے ہمیں نبی پاک ؐ کے اسوہ حسنہ کو سچے دل سے اپنانا ہو گا ، حضور پر نور کی سنتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہو گا ۔ اگر ہم انکے بتا ئے ہوئے راستے پر چلیں تو اپنے پیارے آقا ؐ سے عشق کے اظہار کا اس سے بہتر ین اور کوئی طریقہ نہیں ہے ۔نبی پاک ؐ کے ٓاسوہ حسنہ پہ چل کے ہی ہم ان کا اپنی امت سے محبت کا قرض اتار سکتے ہیں جو راتوں کو سجدوں میں امت کی بخشش کیلئے رویا کرتے تھے۔ اللہ تعالی ہم سب کو آپؐکی سیرت پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ا ٓمین
٭…٭…٭