جمہوریت کا فروغ و استحکام شائستگی اور رواداری کی سیاست سے ہی ممکن ہے

حکومت کا اپوزیشن کیخلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ اور وزیراعظم کا مفاہمت نہ کرنے کا اعلان
وفاقی کابینہ کی سیاسی کمیٹی نے اپوزیشن کیخلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان نے میاں نوازشریف کی واپسی کیلئے قانونی اقدامات تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز کابینہ کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ اپوزیشن سے مفاہمت نہیں کی جائیگی۔ کرپشن مقدمات کو ہرصورت منطقی انجام کو پہنچایا جائیگا اور ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی پر اپوزیشن کو کوئی رعایت نہیں دی جائیگی۔ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے ریاست مخالف بیانیے کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا اور میاں نواز شریف کے خطاب کے حوالے سے مختلف قانونی اقدامات پر غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے پارٹی رہنمائوں کو گائیڈ لائنز سے آگاہ کردیا ہے۔ 
ویسے تو پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے معاملہ میں شروع دن سے ہی سخت گیر پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور کسی چور ڈاکو کو این آر او نہ دینا ان کا مرغوب نعرہ بن چکا ہے اور انکی تقلید میں وفاقی اور صوبائی وزرائ‘ معاونین خصوصی اور پی ٹی آئی کے عہدیداران اور ارکان اسمبلی بھی اپوزیشن کے معاملات پر وزیراعظم عمران خان والے لب و لہجے میں ہی بات کرتے اور جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں تاہم اب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کو کچلنے کیلئے حکومتی سطح پر انتظامی مشینری کے ذریعے جو بے رحم اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھتے بڑھتے تصادم کی نوبت لاتی نظر آرہی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس نوعیت کی سیاسی محاذآرائی ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی بساط الٹانے کا موقع فراہم کرنے پر منتج ہوتی رہی ہے۔ اسی تناظر میں جمہوریت کو بچانے‘ اسے استحکام کی منزل سے ہمکنار کرنے اور اسکے ثمرات سے عوام کے مستفید ہونے کی فضا ہموار کرنے کیلئے شائستگی اور رواداری کی سیاست کا دامن تھامنے کا تقاضا ہوتا رہا ہے۔ بدقسمتی سے قومی سیاسی قائدین کے حوالے سے اب تک یہ تاثر پختہ ہوتاہی نظر آرہا ہے کہ انہوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ آج بھی باہم دست و گریباں ہونے کے راستے نکال کر ماضی کی طرح جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کی کوششوں میں ہی مگن ہیں۔ 
بے شک ملک کی عسکری قیادتیں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے آئین و قانون کی پاسداری اور اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں میں رہتے ہوئے فرائض منصبی سرانجام دینے کے عزم پر کاربند ہیں اور جمہوریت کے استحکام میں معاون بن رہی ہیں جو ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں انتہائی خوش آئند صورتحال ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی قائدین سے ملاقات میں آئین و قانونین کی پاسداری اور عساکر پاکستان کو سیاست سے دور رکھنے کے عزم کا ہی اعادہ کیا جس میں ایک دوسرے کے مخالف سیاست دانوں کی جانب سے چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی روش ختم ہو جانی چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے بلیم گیم کی سیاست میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے کی جانب گرد اچھالنے کے عمل میں ریاستی اداروں کو خود ہی محاذآرائی والی سیاست کی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا جس سے آج سیاسی کشیدگی انتہاء کو پہنچی نظر آتی ہے تو اس سے سسٹم کو ماضی جیسے خطرات لاحق ہونا بھی بعیداز قیاس نہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابقہ اور موجودہ حکمران طبقات میں سے جس جس نے بھی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر لوٹ مار کی ہے اور وہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں یا رہے ہیں‘ انکے خلاف قانون کے تقاضوں کے مطابق کارروائی عمل میں آنی چاہیے جس کیلئے عدلیہ‘ نیب اور دوسرے متعلقہ انتظامی ادارے موجود ہیں۔ ان اداروں کی جانب سے متعلقہ سابق اور موجودہ حکمران طبقات کیخلاف نیب کے مقدمات بھی درج ہوئے‘ ریفرنس بھی دائر ہوئے اور فیصلے بھی صادر ہوئے جن کے تحت سزاوار ٹھہرائے ملزمان قانون کے شکنجے میں ہیں اور سزائیں بھی بھگت رہے ہیں۔ اس حوالے سے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال بے لاگ اور سخت گیر احتساب کے داعی بھی ہوتے ہیں اس لئے احتساب کے بلاامتیاز اور بے لاگ عمل پر کسی کو اعتراض ہے نہ ہونا چاہیے تاہم اس حوالے سے قانون و انصاف کے فورموں پر ہی کارروائی ہونی چاہیے۔ آرمی چیف نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ سیاست دان اپنے معاملات مجاز فورموں پر ہی طے کریں اور فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے مگر بدقسمتی سے آج بھی حکومتی اور اپوزیشن قائدین کی جانب سے بلیم گیم کا سلسلہ شدومد کے ساتھ جاری ہے جس میں وزیراعظم عمران خان خود اپوزیشن کے ساتھ جارحانہ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرکے اس سے دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں اور جو کام عدلیہ اور نیب کے کرنے کے ہیں وہ بھی حکومت کی جانب سے سرانجام دینے کا تاثر دیتے ہیں تو اس سے سیاسی درجہ حرارت بھی شدت کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کی سیاسی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں اپوزیشن کیخلاف مزید جارحانہ پالیسی اپنانے کا طے کیا گیا ہے تو یہ پہلے سے موجود سیاسی کشیدگی کی فضا کو ممکنہ طور پر تصادم کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے جس کی حدت سے ٹریک پر چڑھے جمہوری نظام کو بچانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائیگا۔ اگر آپ جلتی پر تیل ڈال کر خود کو محفوظ سمجھیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہوگا اس لئے آج قومی ریاستی اداروں کیلئے آئین و قانون کی حدود میں رہنا یقینی بنانے اور جمہوریت کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے دینے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی صفوں میں رواداری اور شائستگی کی سیاست کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اگر سیاست کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب دھکیلا جائیگا تو ماضی کی طرح جمہوریت کا مردہ خراب ہونا بعیدازقیاس نہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن