جام کمال کیخلاف تحریک عدم اعتماد ، ووٹنگ پیر کو

کوئٹہ (بیورو رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف 33 ارکان کی اکثریت سے  تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ سپیکر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ سردار عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ کی خراب حکمرانی کے باعث  بدامنی اور بے روزگاری بڑھی، وزیراعلیٰ جام کمال خود کو عقل کل سمجھ کر معاملات چلارہے ہیں۔ خراب کارکردگی پر وزیراعلیٰ کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ 65 ارکان کے ایوان میں سے  33 ارکان نے کھڑے ہوکر وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی۔ قرارداد کے حق میں بی اے پی کے ناراض رکن سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہے، ہمارے 5ارکان  لاپتہ ہوگئے ہیں، آئندہ چند دنوں میں 5 مزید لاپتہ ہوجائیں گے۔ اس طرح وہ یہ تحریک ناکام بنالیں گے‘ لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا۔ جام کمال خان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ استعفیٰ نہیں دوں گا‘ رائے شماری کے فیصلے کو قبول کروں گا‘ رکن بلوچستان اسمبلی اسد اﷲ بلوچ نے کہا کہ ہمارے 4 ایم پی اے لاپتہ ہیں‘ بی اے پی کے ناراض رکن نے کہا کہ ہم نے اسمبلی کی سیڑھیوں پر دھرنا دے دیا ہے اور ساتھیوں کی بازیابی تک دھرنا جاری رہے گا۔ اجلاس سے قبل وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے صوبائی وزرائ‘ سینیٹرز‘ اراکین اسمبلی اور پارلیمنٹیرینز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا جس میں ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی‘ صوبائی وزراء میر سلیم  احمد کھوسہ‘ عارف محمد حسنی‘ محمد خان طور‘ مٹھا خان کاکڑ‘ عبدالخالق ہزارہ‘ زمرک خان اچکزئی‘ صوبائی مشیران نوابزادہ گہرام خان بگٹی اور سردار سرفراز خان ڈومکی سمیت سنیٹر آغا عمر احمد زئی‘ سینیٹر دنیش کمار اور دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر جام کمال نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر پراعتماد ہوں۔ سرپرائز دیں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایوان سے پانچ ارکان اسمبلی لاپتہ ہیں۔ پانچ اراکین اسمبلی مسنگ اور گرفتار ہیں۔ سب کو آئینی اور جمہوری حق استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ ملک سکندر نے سپیکر سے مسنگ ارکان کو ایوان میں لانے کا حکم دینے کی استدعا کی۔  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی ناراض اراکین بشریٰ رند، ماہ جبین شیران، لالا رشید، اکبر آسکانی اور لیلیٰ ترین شریک نہیں ہوئے۔ تاہم تھوڑی دیر کے بعد لالا رشید اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی نے اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں 34 ارکان نے ووٹ دیا، 8 مزید ارکان بھی ووٹنگ کا حصہ بن سکتے ہیں، جام کمال کو چاہیے کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ 5 ارکان کو غائب کرنے کی باتیں قابل مذمت ہیں، مخالفین اپنی شکست دیکھ کر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو منانے کی کوشش کررہے تھے،  اسمبلی اراکین کا ایوان میں آنا یا نہ آنا ان کا اپنا حق ہے، کسی کو زبردستی ایوان میں جانے سے روکا نہ لایا جا سکتا ہے، ہم ناراض اراکین کے ساتھ رابطے میں تھے، کچھ ناراض اراکین مان گئے باقی بھی مان جائیں گے۔ پکچر کلیئر ہے، ناراض اراکین واپس آجائیں گے۔ دوسری طرف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر بحث مکمل ہو گئی ہے۔ سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ پیر 25 اکتوبر کو دن 11 بجے ہو گی۔ بلوچستان کے وزیر نور محمد دمڑ نے استعفی دیدیا۔ اس حوالے سے نور محمد دمڑ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا حصہ نہ بننے کی وجہ وزیراعلیٰ کو موقع دینا تھا۔ ایک ماہ کی مہلت کے باوجود وزیراعلیٰ کا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ جام کمال کے ساتھ تھا لیکن انہوں نے پارٹی قیادت کے فیصلوں کی مخالفت کی۔ جام کمال نے ٹوئٹر پر پارٹی  صدارت سے استعفیٰ دیا پھر واپس لے لیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...