عید میلاد النبی ؐ اور زعفرانی اور صیہونی ایجنڈے میں مماثلت

پاکستان کے طول و عرض میں نبی آخر الزمان ؐ کے ظہور مبارک کے حوالے سے ہر طرف  جشن کا ساماں ہے اور درودو سلام کی صدائیں ہر گلی کوچے میں گونج رہی ہیں ۔دوسری جانب تین روز قبل یعنی15اکتوبرکو آر ایس ایس کے قیام کی سالگرہ منائی گئی۔اسی روز ہندو مذہب کا اہم ترین تہوار ’’دوسہرا‘‘ بھی منایا گیا ۔
اسی ضمن میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگت نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹا تقریر کی جس میں موصوف نے کہا کہ ’’ہندوستان کے سینے پر لگنے والا سب سے بڑا زخم قیام پاکستان تھا ،جس روز بھارت ماں کا بٹورا ہوا ۔پوری کوشش کی جانی چاہیے کہ تار یخ کو درست کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیںاور واپس اکھنڈ بھارت جس میں افغانستان ،سری لنکا ،نیپال گویا پورے جنوبی ایشیاء کودوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بنایا جاسکے‘‘۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق اگر ایسی یاواگوئی اگر کسی عام آدمی کی جانب سے ہوتی تو وہ شائد نظر انداز کی جا سکتی ہے مگر آر ایس ایس کے سربراہ کی جانب سے اس بیانیے کی ترویج کسی بھی طور سرسری قرار نہیں دی جاسکتی ۔اس ضمن میں یہ امر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس موقع پر اسرائیل کے کونسل جنرل نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور اُن کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے سفارت کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ 
صرف اسی ایک معاملے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صہیونی اور زعفرانی ذہنیت کس حد تک ایک پلیٹ فارم پر متحد ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ وطن عزیز کے متعلقہ پالیسی ساز حلقے سے اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کریں گئے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ شیو سینا کے ترجمان سنجے راوت نے نریندی مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دسہرے کے تہوار پر تو ہم ایک راون جلا رہے ہیں لیکن 2024کے لوک سبھا چنائو میں بڑا راون(نریندر مودی) ہمیشہ کیلئے جل کر راکھ ہو جائے گا۔یہاں اس بات کا تذکرہ بھی غالبا بیجا نہ ہوگا کہ بھارت دنیا بھر میں اسرائیلی اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار ہے ۔
دوسری طرف ہندوستان کے صوبوں پنجاب، مغربی بنگال، آسام، ناگالینڈ، تریپورہ، منی پور، میزورام اور میگھالیہ میں بی ایس ایف کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ سے پاکستان میں شدید تحفظات کا پایا جانا فطری بات ہے۔خصوصا بھارتی پنجاب  کے شہری  سراپا احتجاج ہیں کہ بارڈر سیکورٹی فورس کو اتنے اختیارات کسی قیمت پر نہیں دیئے جانے چاہیے۔ 
27 ملین سے زائد باشندوں کے ساتھ پنجاب آبادی کے لحاظ سے 16 ویں نمبر پر ہے جو 23 اضلاع پر مشتمل ہے۔ پنجابی، جو گورمکھی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے صوبے کی سرکاری زبان ہے۔ صوبائی دارالحکومت چندی گڑھ ہے اوردنیا بھر کی سکھ آبادی کا تقریبا 75فیصد بھارتی پنجاب میں آباد ہے۔پنجاب میں23 اضلاع ہیں جن کو جغرافیائی طور پر ماجھا، مالوا، دوآ بہ اور پوڈھ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 یاد رہے کہ انتظامی لحاظ سے انہیں سرکاری طور پر 5 ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو کہ پٹیالہ، روپ نگر، جالندھر، فرید کوٹ اور فیروز پورہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی کے طور پر ہندوستانی وزارت داخلہ نے بی ایس ایف ایکٹ 1968 کے ایکٹ (1) 139 میں ترمیم کر کے بی یس ایف کا دائرہ کار بھارت کی بین الاقوامی سرحد اور ورکنگ بائونڈری سے 15 کلومیٹر سے بڑھا کر 50 کلومیٹر کر دیا ہے۔
اب بی ایس ایف بھارتی سرحد سے 15 کلوکومیٹر کے بجائے 50 کلومیٹر اندر تک چھاپے مارنے، آپریشن کرنے اور لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اسکے لئے اسے کسی اجازت کی بھی ضرورت نہیں۔اس قانون سے 12 بھارتی ریاستیں متاثر ہونگی جن میں پنجاب، راجستان، گجرات، مغربی بنگال، منی پور، میزورام، میگھالیہ، تریپورہ، ناگالینڈ، مقبوضہ جموں و کشمیر، مقبوضہ لداخ شامل ہیں۔اس قانون سے آسام، پنجاب اور مغربی بنگال میں بی ایس ایف کا کنٹرول بے انتہا بڑھ گیا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت میں بارڈر سیکورٹی فورس کے دائرہ کار اور اختیارات میں یکایک بے انتہا اضافہ کر کے دہلی سرکار متعدد صوبوں کو اپنے دائرہ کار میں لانا چاہتی ہے۔واضح ہوکہ بی ایس ایف فورس دو لاکھ 65 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے۔نئے قانون کے تحت شمال مشرقی پانچ ریاستیں ناگالینڈ، تریپورہ، منی پور، میزورام اور میگھالیہ مکمل طور پر بی ایس ایف کے دائرہ اختیار میں آ چکی ہیں۔
اسی پس منظر میں بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی نے بجا طو رپر کہا ہے کہ بھارت سرکار کی جانب سے بھارتی پنجاب پر ناجائز قبضے کا عمل شروع ہو گیا ہے جو کسی بھی طو رقابل قبول نہیں ہے ۔یاد رہے کہ تین ہفتے قبل بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اعلی امریندر سنگھ نے امت شاہ سے خصوصی ملاقات کرکے کہا تھا کہ بھارت کے سرحدی صوبے یعنی بھارتی پنجاب میں ہندوستان کی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور خالصتان تحریک اپنے پنجے بڑی تیزی سے پھیلا رہی ہے اور اگر ہندستان کی جانب سے بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ہندوستان کی آزادی مشکل میں پڑ سکتی ہے اور امریندر سنگھ کے اسی بیان کے بعد سے بی ایس ایف کو نئے اختیارت دینے کے حوالے سے نیا قانون نافذ کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن