میاں غفار احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست دانوں کیلئے ریٹائرمنٹ کی کوئی مخصوص مدت نہیںہوتی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس سب کچھ عارضی ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے آتے جاتے رہتے ہیں مگر سیاستدان سیاست کے اِس کاروبار کو نسلوں تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اپنی نسلوں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کی طرح کوئی پریشانی نہیں ہوتی لہٰذا وہ ٹھنڈی کر کے کھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اکثر اوقات اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں سے مذاکرات کرتے دکھائی دیتی ہے۔ سیاست دان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے جس کسی عنصر سے کوئی معاملہ طے کر کے سیاسی میدان میں داخل ہوتے اور خود کو مضبوط کرتے ہیں دوسری طرف اتنی دیرمیں وہ ریٹائرڈ ہو چکا ہوتا ہے اور سیاستدان نیا جال لیکر پھر میدان میں ہوتا ہے ۔
اب پھر ایک ایسا موقع آیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کوآصف علی زرداری سے رابطہ کرنا پڑا ہے اور واقفان حال کے مطابق یہ رابطہ اسلام آباد میں چند ہی دن قبل ہوا۔ کہتے ہیں کہ زرداری نے انہیں وہی پرانا بلوچی قصہ سنا ڈالا جس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ جو ظالم کہلایا جاتا ہے لوگ پھر اِس سے ہی فیصلے کرانے کیوں چلے جاتے ہیں اور کوئی بھی فوری ردعمل نہیں دیا۔ پاکستانی سیاست دانوں کے بھی وارے نیارے ہیں۔
ایک ایک سیاستدان اپنی سیاسی زندگی میںاسٹیبلشمنٹ کے دس دس مختلف نوع کے نمائندگان سے مذاکرات کر جاتا ہے۔ سیاست اپنے راستے پر چلتی رہتی ہے مگر دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہر بار نئے روپ کے ساتھ سامنے ہوتا ہے ،یہ ریٹائرمنٹ بھی بہت ظالم چیز ہے بندے کو جلد باز بنا دیتی ہے۔
جنوبی پنجاب میں یہ معمول بن چکا ہے کہ سرکاری افسران اکثر سرکاری امور حتیٰ کہ اہم میٹنگز رات گئے کرتے ہیں۔ اب آفس کے اوقات کار تو خیر سے تصور ہی ختم ہو گیا ہے۔ کام ہو یا نہ ہو بس سوشل میڈیا پر ہوتا ہوا نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی انتظامی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ ضلعی نظام حکومت میں بعض ضلعی ناظمین کے دفتری امور رات کو شروع ہوتے تھے اور رات کے آخری پہر وہ لوگ سوتے تھے۔ خانیوال میں ڈپٹی کمشنر ڈاکٹروں کا جھگڑا جس میں درخواستیں اسسٹنٹ کمشنر میں موجود تھیں دیر رات کو ہونے والی ایک میٹنگ میں ہوا ۔ معاملہ تو خیر صلح پر ختم ہوا مگر سوال یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے وہ قوانین کہاں دفن کر دئیے گئے ہیں جن کے مطابق کسی سرکاری اہلکار کو سورج ڈھلنے کے بعد سرکاری امور کے لیے بلایا نہیں جا سکتا۔ صرف محکمہ صحت کے زیر انتظام ہسپتال اِس سے مسثنیٰ تھے۔ اب تو قاعدے قانون نہیں بس حکم ہی چلتے ہیں۔
بس بلدیاتی اداروں کی حالیہ بحالی بھی کچھ اس قسم کی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ حکومتی ٹیم کسی بھی قابل نہیں حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے بھی پنجاب بھر کے تمام بلدیاتی ادارے مکمل طورپر کنگال کر دیئے گئے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس اعلیٰ تعلیم یافتہ ایڈمنسٹریٹر حضرات کے دور میں تنخواہیں بھی دینے کے فنڈز نہیں۔
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی سموگ شروع ہونے کو ہے۔ گزشتہ سال دھان کی فصل کی باقیات کو جلائے جانے کی وجہ سے موٹروے پر خوفناک حادثات اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ پنجاب بھر میں دھان کی باقیات کو جلانے پر پابندی ہے اور ہر ضلع میں اس حوالے سے دفعہ 144 کا اطلاق بھی ہوتا ہے مگر کسی بھی انتظامی آفیسر کی اس طرف کوئی توجہ نہیں۔ ابھی سے ہی بڑے پیمانے پر دھان کی باقیات جلائی جا رہی ہیں اور لاہور سے ملتان کے علاوہ لاہور سیالکوٹ موٹروے اور بین الاضلاعی سڑکوں کے اردگرد آگ کے الائو شروع ہو چکے ہیں۔ مگر ضلعی افسران کی اس طرف توجہ نہیں۔ جتنی کرپشن اس وقت جنوبی پنجاب میں ہو رہی ہے‘ اس کا تصور بھی محال ہے۔ حکومت کے پاس فنڈز دستیاب نہیں مگر اربوں روپے کے ترقیاتی سکیموں کے فنڈز لگائے جا رہے ہیں۔ جو اعتراضات سابق حکومت پر تھے اس قسم کے اعتراضات کم از کم ترقیاتی محکموں کے حوالے سے تو اب بھی موجود ہیں۔ کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہو رہا اور سارا پنجاب اکھڑا پڑا ہے۔ جس سکیم کے عوض صرف 5 فیصد فنڈز آتے ہیں اس کے ٹینڈر لگا دیئے جاتے ہیں اور پنجاب میں تیس محکموں میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ ایک محکمہ فنڈز لگا کر کام کرتا ہے تو دوسرے دو محکمے اس کام کی ادائیگیاں کر دیتے ہیں۔ رہا آڈٹ کرنے والوں کا معاملہ تو وہ بھی تو اسی مٹی کی پیداوار ہیں جس کیلئے انگریز نے بھی اپنے سسٹم میں کمیشن متعارف کرا رکھا تھا۔
مودی گینگ کے بعد رحیم یار خان میں کچے کے علاقے کا اندھڑ گینگ جس نے صادق آباد میں ایک ہی حملے میں 9افراد کو قتل کر دیا۔ اِس گینگ کو بھی نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کی معاونت حاصل تھی اور چند ہی ماہ پہلے ایک ڈی ایس پی نے اس قاتل گروہوں سے مذاکرات بھی کئے تھے۔ انہی لوگوںنے مخبری پر ایک پولیس کانسٹیبل کو بھی قتل کر رکھا ہے۔ تفصیلات بہت گھنائونی ہیں اور پولیس کے مقامی اہلکاروں کا کردار بھی مشکوک، جس پٹرول پمپ پر چند ماہ قبل اس برادری کے 7 افراد کے قتل کا جشن منایا گیا تھا اور پولیس کو ہار پہنائے گئے تھے ۔
چند دن پہلے اسٹیبلشمنٹ کا آصف علی زرداری سے رابطہ
Oct 21, 2021