اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی حکومتی درخواست اور لانگ مارچ روکنے کا پیشگی حکم دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ حکومت قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتی ہے۔ جب قانون کی خلاف ورزی ہوگی تب ہی مداخلت کریں گے۔ ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی آئیں گے۔ کسی بھی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان کر رہے ہیں، حکومت قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتی ہے۔ ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہیں، حکومت شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں، گزشتہ حکم پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے دی گئی رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دئیے گئے ہیں۔ 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے، عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا، جب لوگ ہوں تو حکومت کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں، ابھی تو کوئی ہجوم نہیں ہے، آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کیلئے مکمل تیار کرے۔ عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔ کسی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہیں۔ مفاہمت کے لیے اقدامات ہونے چاہیں، ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں، ہم لیول پلیئنگ فیلڈ کو یقینی بنائیں گے، لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر اداروں کی رپورٹس کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ رپورٹس کا جائزہ لیں اور اگر کچھ ہوا تو دوبارہ عدالت آ جائیں۔کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے گزشتہ مارچ کے موقع پر سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔ اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی،یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی۔ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیئے گئے تھے۔ سری نگر ہائی وے کا گراؤنڈ انہوں نے خود مانگا تھا،کارکنان کال پر ڈی چوک کی طرف آ گئے، کارکنان ریڈ زون کی طرف آئے لاء انفورسمنٹ ایجنسیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر 25 مئی کا عدالتی حکمنامہ پڑھ کر سنایا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل میں کا مظاہرہ کر رہے ہیں، عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کی۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی لیڈر شپ نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی۔ مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا رپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کر دی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا عبوری حکم دیں۔ اٹارنی جنرل نے اس پر بتایا کہ عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں، عمران خان اپنی تقریروں سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں۔ عدالت نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے،جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا خیبر پی کے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی پولیس اسلام آباد آچکی ہے، عوام کا سیلاب آسکتا ہے، چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہاں عوام کا سیلاب، پچھلی مرتبہ دو تین سو لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے۔ میرے خیال میں وہ 200 تین سو لوگ مقامی تھے، وہ لوگ مظاہرین کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس چیز کو دوبارہ دوہرا رہے ہیں۔ کیس کی سماعت آئندہ بدھ تک کے لئے ملتوی کر دی۔