کسی صحافی کے دل میں جمع ہوئے خدشات عملی صورت اختیار کرتے نظر آئیں تو وہ شاداں محسوس کرتا ہے۔”میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا“ والے فخر کے ساتھ عقل کل بنااِتراتا ہے۔اپنی بے شمار خامیوں کے باوجود نجانے کیو ں میں اس رویے کا شکار نہیں ہوا۔بسااوقات بلکہ چند اہم ترین معاملات کی بابت میرے خدشات بالآخر درست ثابت ہوں تو واقعتا پریشان ہوجاتا ہوں۔
رواں برس کے آغاز میں عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنے کی گیم لگنا شروع ہوئی تو بارہا اس کالم میں استدعا کرتا رہا کہ انہیں بطور وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل کرنا چاہیے۔ عاشقان عمران مجھے ”لفافوں“ کی صف میں کھڑا دیکھتے ہیں۔ان کی اکثریت اخبار میں چھپے کالم بھی نہیں پڑھتی۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے چند اہم لوگ مگر اب بھی سیاسی موضوعات پر لکھے کالم تھوڑی توجہ سے پڑھتے ہیں۔ان میں سے کچھ لوگوں سے دیرینہ شناسائی بھی ہے۔کسی بے تکلف محفل میں وہ اتفاقاََ مل جاتے تو میری رائے کی بابت حیرت کا اظہار کرتے۔ یاد دلاتے کہ عمران حکومت کا رویہ میرے ساتھ دوستانہ نہیں مخاصمانہ ہے۔اس کے ہوتے ہوئے میں ٹی وی سکرینوں پر تبصرہ آرائی کے مواقع سے بھی محروم رہا ہوں۔اس تناظر میں یہ لوگ مجھ سے یہ توقع باندھے ہوئے تھے کہ میں عمران خان صاحب کے خلاف لگائی گیم سے خوش ہوں گا۔
گیم بہرحال لگ چکی تھی۔ان دنوں کی اپوزیشن نے باہم مل کر بالآخر مارچ 2022ءکا آغاز ہوتے ہی قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد باقاعدہ طورپر جمع کروادی۔عدم اعتماد کی تحریک قواعد وضوابط کے مطابق جمع کروادی جائے تو ہمارے تحریری آئین کے ہوتے ہوئے اس پر گنتی سے مفر ممکن ہی نہیں۔عمران خان صاحب نے مگر مطلوبہ گنتی ٹالنے کے لئے جارحانہ انداز میں ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کی ٹھان لی۔ واشنگٹن میں ان دنوں مقیم پاکستانی سفیر کے ایک مراسلے کو بلکہ یہ پیغام اجاگر کرنے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا کہ ان کے ”چور اور لٹیرے“ مخالفین اپنے تئیں تحریک عدم اعتماد والی گیم لگاہی نہیں سکتے تھے۔ انہیں اس راہ پر امریکہ نے دھکیلا ہے جو عمران صاحب کی ”خودار“ پالیسیوں سے اُکتا چکا ہے۔قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے مذکورہ الزام کو بنیاد بناتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو رد کردیا۔ آئین کی اس واضح خلاف ورزی کی بابت سپریم کورٹ لاتعلق نہ پائی۔تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ فریقین کے دلائل سنے اور بالآخر قومی اسمبلی کو مجبور کیا کہ وہ عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کا عمل مکمل کرے۔خان صاحب اس کی بدولت فارغ ہوگئے تو شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میری شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی نئے انتخابات کی راہ نکالنے پر گامزن ہوجائیں۔ایسا مگر ہوا نہیں۔شہباز صاحب نے وفاق میں قائم ہوئی حکومت کو اگست 2023ءتک برقراررکھنے کی ٹھان لی۔واجب سیاسی وجوہات کی بنا پر وہ جبلی طورپر جانتے تھے کہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب میں حکومت کے حصول کے بغیر وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ گجرات کے چودھری برادران پر تکیہ کرتے ہوئے بزدار حکومت کے خلاف گیم لگائی۔چودھری پرویز الٰہی مگر آخری لمحات میں انہیں غچہ دے گئے۔ اپنے ہدف کے حصول کے لئے مسلم لیگ (نون) کو تحریک انصاف کے منحرف اراکین پر انحصار کرنا پڑا۔ عدالتی مداخلت نے مگر یہ گیم بھی بالآخر ناکام بنادی۔
عدالت نے پنجاب میں حکومت سازی کے لئے جو رویہ اختیار کیا اسے ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ (نون)کو ”لوٹوں“ کی وجہ سے خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات سے قبل ہی پنجاب اسمبلی سے مستعفی جانا چاہیے تھا۔ اس منطقی پیش قدمی سے لیکن گریز ہوا اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ تصور اجاگر کیا کہ پنجاب اب مسلم لیگ (نون) کا ناقابل تسخیر قلعہ نہیں رہا۔ حتیٰ کہ لاہور میں بھی وہ چار میں سے محض ایک نشست جیت پائی۔مسلم لیگ کی مذکورہ انتخابات میں شکست کا اصل سبب مہنگائی کا وہ طوفان تھا جو مفتاح اسماعیل کی جانب سے ”ریاست کو دیوالیہ“ سے بچانے کے لئے متعارف کروائے فیصلوں کی وجہ سے امڈ پڑا تھا۔بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا تو غریب ترین پاکستانیوں کے لئے بھی لازم شمار ہوتی اشیائے صرف جن کی تعداد 50کے قریب ہے مہنگی سے مہنگی تر ہونا شروع ہوگئیں۔
گزرے اتوار کے دن قومی اسمبلی کی جن آٹھ نشستوں کے لئے ضمنی انتخاب ہوئے ہیں ان میں سے ایک بھی مسلم لیگ (نون) جیت نہیں پائی۔ میری دانست میں اس کا بنیادی سبب دیگر کئی وجوہات کے علاوہ گزشتہ تین مہینوں سے ہمارے ہاں آئے بجلی کے بل ہیں۔
معاشی فیصلوں کو اگر طلب ورسد کی منطق ہی سے جانچا جائے تو شہباز حکومت کی جگہ اگر کوئی اور بھی ان دنوں برسراقتدار ہوتا تو ٹھوس عالمی اور مقامی وجوہات کی بنیاد پر ابھرے مہنگائی کے طوفان کو روک نہیں پاتا۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی مگر حکومتوں کی ”مجبوریوں“ کو ذہن میں نہیں رکھتے۔ اپنی محدود آمدنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی بھی حکومت کو ”اچھا“ یا ”برا“ تصور کرتے ہیں۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت یقینا ”بری“ نظر آرہی ہے جس سے ”نجات“ کی خواہش فطری ہے۔مسلم لیگ (نون) کے اہم رہ نما مگر یہ حقیقت تسلیم کرنے سے کنی کترارہے ہیں۔یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ عمران خان صاحب اب بھی ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے ”لاڈلے“ ہیں۔بدھ کے روز قومی اسمبلی کے ہوئے اجلاس کے دوران لاپتہ افراد کے مسئلہ پر تقاریر کرتے ہوئے وفاقی وزراءاپنے بارے میں ”بے اختیار“ہونے کا تاثر بھی دیتے رہے۔ مجھے گماں ہے کہ ”بے اختیاری“ کے ماتم کا آغاز ہوچکا ہے جس کا منطقی انجام ہماری ریاست کو مزید غیر مستحکم بنائے گا۔