ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اینٹیں ڈھالنے والے بھٹوں پر اس وقت 33 لاکھ بچے کام کر رہے ہیں۔ چند سطر کی اس خبر میں کوئی زیادہ تفصیل نہیں۔ ظاہر ہے، ریکارڈ مکمل کرنے کے لیے اتنی گنتی بتا دینا کافی ہے اور یہ بات تو رپورٹ میں دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ 33 لاکھ کی یہ ”ورک فورس“ دن میں کتنے گھنٹے کام کرتی ہے۔ معلوم سچائی یہ ہے کہ ان کی ڈیوٹی 12 سے 15 گھنٹے کی ہے، ہفتہ وار چھٹی بھی کوئی نہیں اور یہ ڈیوٹی محض ڈیوٹی نہیں ہے، غلامی ہے کیونکہ یہ بچے اور ان کے والدین بھٹوں کی حدود سے باہر جا ہی نہیں سکتے، ان کا معاوضہ نہ ہونے کے برابر ہے گویا یہاں چائلڈ لیبر بھی ہے، بانڈڈ لیبر بھی، سلیوری SLAVERY بھی اور حبس بے جا بھی۔
33 لاکھ تو یہ ہوئے اور پھر ملک بھر کے چائے خانوں، ڈھابوں، ریسٹورنٹس ، سائیکل اور موٹر سائیکل ورکشاپوں، کار واش، پٹرول پمپوں پر ملازم ہیں، ان بچوں کی تعداد کتنے لاکھ ہو گی۔
ان کے علاوہ وہ بھی ہیں جو گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایک دو لاکھ سے تو وہ بھی زیادہ ہی ہوں گے۔ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کئی لاکھ بچے وہ بھی ہیں جو بوٹ پالش کرتے ہیں۔ یہ بچے زیادہ تر پختونخواہ کے دور دراز علاقوں سے پنجاب اور خود پختونخواہ کے بڑے شہروں میں دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔ لاکھوں بچے وہ ہیں جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے پلاسٹک کے شاپر اور دوسری چیزیں اکٹھی کر کے کباڑ خانے میں جا کر بیچتے ہیں۔ یہ بھی چائلڈ لیبر ہیں۔ ایک بوٹ پالشر بچے سے پوچھا گیا، تم یہ کام اپنے ہی گاﺅں یا قصبے میں کیوں نہیں کرتے، ادھر کیوں آتے ہو وہ بولا، ہمارے علاقے میں کوئی بوٹ پہنتا ہی نہیں۔ غربت کی یہ جھلک بالعموم باقی اہل وطن کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ایسا ہی حال اندرون بلوچستان میں ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چائلڈ لیبر کی صورت قبل از مشرف کے دور میں اتنی بدتر نہیں تھی۔ یہ عذاب مشرف دور میں نازل ہوا اور اس میں ہولناک اضافہ اس دور میں ہوا جس کے مدارالمہام ریاست مدینہ کی بات کرتے نہیں تھکتے۔
___________
ایک اور خبر یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نے قرارداد جمع کرائی ہے جس میں عورتوں اور بچوں سے بھیک منگوانے والوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کارروائی تو خیر کیا ہو گی کہ یہ بھیک منگوانے والے بذات خود ڈان اور ٹائیکون ہیں جن کا نام سن کر ہی بڑے بڑوں کے چھکّے چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ مافیاز ایوب دور میں قائم ہوئے تھے اور ان میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جو بچوں کو اغوا کر کے، ان کے اعضا توڑ کر، آنکھیں نکال کر،ریہڑوں پر ڈال کر بھیک منگواتے تھے اور منگواتے ہیں۔
یہ بھی چائلڈ لیبر ہے۔ بعض ”سمجھدار“ حضرات کہا کرتے ہیں کہ پیشہ ور گداگروں کو بھیک نہیں دینی چاہیے گویا غیر پیشہ ور گداگر بھی ہوتے ہیں۔ ارے بھئی، گداگری سب کی سب ایک پیشہ ہی تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیشہ اپنانے پر لوگ کیوں مجبور ہوتے ہیں۔ یہ گداگر اگر کھانے کے قابل ہوتے تو یہ پیشہ اپناتے ہی کیوں؟۔ پوش علاقوں میں بڑے بڑے ، مہنگے اور شاندار ریسٹورنٹس کی سیڑھیوں سے کچھ دور اور شادی ہالوں کے باہر آپ کو ان پیشہ ور گداگروں کے بچے بڑی تعداد میں بیٹھے نظر آئیں گے جو بڑے صبر سے، گھنٹوں تک اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ ردّی اور بچا ہوا ، ضائع شدہ کھانا کوڑے کے ڈھیر میں کوئی پھینکنے آئے تو ہم ا س سے اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں اور جب یہ کھانا کوڑے کے ڈھیر میں پھینکا جاتا ہے تو یہ ”پیشہ ور“ بچے یوں ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے نہ جانے کب سے انہوں نے کھانے کا منہ نہیں دیکھا۔
کیا یہ بچے ”شوقیہ“ کام کرتے ہیں؟۔ گھنٹوں بھوکے پیاسے انتظار میں بیٹھے یہ گندے میلے بچے مردم شماری میں شامل کئے جاتے ہیں، کسی بھی اور ”شماری“ میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ ۔
پیشہ ور گداگر کی اصطلاح ”ضمیر“ کی کسک سے جان چھڑانے کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ وہ ہیں جو مجبور ہو کر بھیک مانگتے ہیں یا ان سے منگوائی جاتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو ہم آپ جیسوں کے گھروں میں پیدا ہوئے لیکن انہیں اغوا کر لیا گیا اور ہاتھ پاﺅں توڑ کر ”پیشہ ور“ گداگر بنا دیا گیا۔
پیشہ ور گداگر ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن وہاں ریاست بھی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ریاست ہوتی ہے یا نہیں، شاید آپ کو اس سوال کے جواب کا پتہ ہو! بہرحال، قرارداد پیش کرنے کا آئیڈیا، دل کے بہلانے کو اچھا ہے۔
___________
بڑے ٹی وی چینل کے پروگرام میں ایک باخبر تجزیہ نگار اور کالمسٹ سلیم صافی نے انکشاف کیا کہ خان صاحب (کون سے والے خان صاحب؟۔ ارے بھائی وہی اپنے والے، بڑے خان صاحب) نے نواز شریف کو کچھ دن پہلے پیغام بھیجا کہ آﺅ میاں، مل کر ”ادارے“ کے خلاف ٹیم اپ ہوتے ہیں، ہاتھ ملا کر اس کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں لیکن میاں صاحب نے پیغام سننے سے ہی انکار کر دیا۔
اسے کہتے ہیں گھر آئی لچھمی کو ٹھکرانا۔ میاں صاحب نے سنہری ترین موقع کھو دیا۔ وہ ہاتھ ملا لیتے تو کتنے مثبت نتیجے نکلتے۔ میاں صاحب پر تین ہو یا تین ہزار ارب کی چوری کا الزام دھل جاتا (انہوں نے کتنی کرپشن کی ہے، یہ بات خود پی ٹی آئی پر واضح نہیں) کرپشن کی مالیت بدلتی رہتی ہے۔ کچھ مہینے پہلے خان صاحب کے ذاتی کالم نگار نے ٹی وی پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف کو پاکستان سے جانے کی اجازت تب ملی جب انہوں نے 26 ٹریلین ڈالر قومی خزانے میں جمع کرائے۔ ایک ٹریلین دس کھرب کا ہوتا ہے، ایک کھرب کا نہیں جیسا کہ بہت سوں کا خیال ہے ۔تو یہ بنے 260 کھرب ڈالر۔ اندازہ کیجئے کتنے روپے بنتے ہیں اور پھر اندازہ کیجئے کہ نواز شریف نے کتنی زیادہ کرپشن کی ہو گی)۔
میاں صاحب پیشکش قبول کر لیتے تو آج پی ٹی آئی والے گلی گلی یہ کورس گاتے پھرتے،
نویں خبر آئی ہے
نواز ساڈا بھائی ہے
اس پروگرام میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بڑے خان صاحب نے نواز شریف کو یہ پیشکش کس انداز میں کی تھی۔ یعنی یہ کہ حکم دیا تھا، تجویز دی تھی، مطالبہ کیا تھا یا درخواست دی تھی؟۔
یہ سوال دراصل خان صاحب کی جنگی حکمت عملی کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔ خان صاحب سیاست کے بہت بڑے جرنیل ہیں اور ان کی جنگی حکمت عملی تاریخ عالم اور روئے گیتی پر بے مثال ہے۔ ”کل چار نکات پر مبنی ہے، نمبر ایک حکم دو، حکم نہ مانے تو تجویز دو، تجویز پر بھی غور نہ کیاجائے تو مطالبہ کرو، مطالبہ بھی مسترد کر دیا جائے تو منّت ترلا کرو۔ یہ بھی کام نہ آئے تو غدّاری سے ”ٹیگ“ کر دو۔ پھر بھی بات نہ بنے تو معافی نامہ ایلچی کے ہاتھ روانہ کر دو۔ یہ سائیکل مکمل ہو جائے تو پھر نیا سائیکل شروع کر دو۔ یعنی یہ کہ نمبر ایک حکم دو....الخ!