بلوچستان میں ہمیشہ سرداری اور قبائلی نظام کی وجہ سے ایک مخصوص سیاسی طرزعمل سامنے آیا ہے۔ ابھی تک ملک کے دیگر پسماندہ اور ناخواندہ علاقوں کی طرح یہاں میروں، نوابوں، سرداروں اور خانوں کی حکمرانی برقرار ہے۔ جمہوریت حقیقی معنوں میں یہاں کبھی پروان نہ چڑھ سکی نہ چڑھنے دی گئی کیونکہ اس سے سرداری نظام کو زک پہنچتی تھی جو یہاں کے سرکردہ قبائلی رہنما کبھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ ووٹنگ کی اجازت تو سب کو تھی کہ وہ عام الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں اپنے امیدواروں کو ووٹ دیں۔ مگر حکم وہی نافذ ہوتا جو سردار کی طرف سے آتا کہ فلاں آدمی ہمارا ہے اس کو ووٹ دینا ہے۔ یوں جمہوری عمل کا جمہوریت کا سارا ڈھانچہ انہی قبائلی سرداروں کے ہاتھوں یرغمال رہتا اور کوئی بھی امیدوار ان کے حکم کی سرتابی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1975ء تک بلوچستان میں تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اسے دینی چاہیے تھی۔ وہاں کے علاقے 1980ء تک صدیوں پرانے ماحول کی عکاسی کرتے تھے۔ سکول اگر تھے بھی تو صرف عمارتیں تھی جہاں نہ استاد تھے نہ بچے۔ سفارشی بھرتی شدہ اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد لوگ ان سکولوں کی کھڑکیاں اور دروازے اتار کر لے جاتے کئی سکولوں کی تو دیواریں توڑ کر لوگ اینٹیں تک لے گئے۔
یہی علم دشمنی کا عمل آج بھی جاری ہے۔ سردار اور سیاستدان آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں سکول چلنے نہیں دیتے۔ گزشتہ روز بھی سکول جلانے کے واقعات سامنے آئے۔ لڑکیوں کے سکول کھولنا ان علاقوں میں خواب ہے جہاں یہ لوگ اپنی سرداری قائم رکھنے کے لیے دن رات عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے سے بچے باغی ہو جاتے ہیں لڑکیاں خودسر ہو جاتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرتی قبائلی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی سازش ہے۔ حیرت ہے خود انہی نوابوں اور سرداروں کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور بیرون ملک جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ واپس آ کر سیاسی اجارہ داری کو قائم رکھیں ۔ سیاستدان اور بیورو کریٹس بنیں۔ یوں ان کا پنجہ عوام اور جمہوریت پر جما رہے۔
صرف نواب اور سردار ہی نہیں بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں علما نے بھی سیاسی دستر خوان پر خوب خوشہ چینی کی اور مذہب کے نام پر اپنی دھاک جما کر آہستہ آہستہ سیاست میں بھی اپنا حصہ وصول کرنا شروع کیا اور یہ مذہبی اجارہ داری کی وجہ سے ہر طرح کے سوال اعتراض سے محفوظ رہے۔ یہاں ان کی سیاست کو مذہبی تقدس عطا ہوا اور ان سے اختلاف کرنے والے مذہب دشمن قرار پائے۔ یوں ایک طرف سرداری نظام دوسری طرف مذہبی گروپ مل کر غریبوں کو ان سے حقوق سے محروم رکھ کر اپنی اپنی تجوریاں بھرنے لگے۔ ان کے ساتھ ہی سرخ انقلاب کے دعویدار بھی تھوڑی تعداد میں ہی سہی سامنے آنے لگے مگر یہ 1970ء کے بعد کی بات ہے۔ پہلے تو بے چارے سرخے صرف نعروں کی حد تک سامنے تھے یا پھر عوامی نیشنل پارٹی کے زیر سایہ کچھ متحرک نظر آتے تھے۔ مگر ان میں بھی مخصوص سیاسی چھاپ اور سرداری رنگ نمایاں تھا۔ بھٹو کے دور میں بلوچستان میں بدامنی کی جو لہر اٹھی اس نے آہستہ آہستہ قدم جمائے بلوچ سرداروں کے قتل کے بعد بھی یہ آگ بی ایس او کے مشعل کے نشان میں روشن رہی۔ مگر یہاں بات، بگتی، بزنجو، مری ، مینگل اور رئیسانی جیسے بیدار مغز سیاستدانوں کی وجہ سے سنبھلتی رہی دہشت گردی کو جو رنگ روپ اب ملا ہے وہ نہیں تھا۔ پشتو بولنے والے پٹھانوں کی بڑی تعداد صمد خان اچکزئی، خان عبدالولی خان کے فلسفے سے متاثر تھی جو افغانستان کے ساتھ ڈیونڈر لائن کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔ مگر ان کی سیاست بھی اسمبلیوں کے الیکشن جیتنے تک محدود ہی۔ پشتونستان کا نعرہ پرکشش ضرور رہا مگر عملی طور پر ہرممکن نہیں رہا۔ اب عمران خان کے اس غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور خود خیبر پی کے میں انہوں نے پشتو نیشنلزم کے بت گرا دئیے ہیں اورآگے بلوچستان میں یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں مذہبی سیاست نے بھی بلوچ اور پٹھان دونوں علاقوں میں نیشنلزم اور سوشلزم عناصر کو روکے رکھا اور مذہبی قیادت کو سامنے لایا بدقسمتی سے یہاں بھی فرقہ واریت نے پنجے گاڑ لیے اور مذہبی سیاست بھی دہشت گردی کے آگے بند نہ باندھ سکی۔
ان تمام باتوں کے باوجود جدید دور میں افغان جنگ کے بعد بھارت نے جس طرح قوم پرست تحریکوں کی سرپرستی شروع کی انہیں مالی امداد اور اسلحہ فراہم کیا اسے اس کام میں افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کا بھرپور موقع ملا تو بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک خوفناک لہر سر اٹھانے لگی اور گزشتہ کئی سالوں سے وہاں سکیورٹی فورسز پر جدید ہتھیاروں کی مدد سے حملے ہو رہے ہیں اور دہشت گرد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کارروائیوںبھارت کی توسط سے مشتہر کرتے ۔ اس نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ بلوچستان میں اس لہر پر قابو پانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ صرف عسکری طاقت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا تمام بڑی بڑی بلوچ اور پشتون سیاسی قیادت کو چاروں صوبوں کے سیاسی قائدین کو مل کر ان گمراہ عناصر کو راہ راست پر لانے کے لیے متفقہ پلان بنانا ہو گا اس وقت واقعی سردار اختر مینگل اور نوجوان سیاسی قیادت اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ تمام ناراض بلوچ گروپوں سے رہنمائوں سے بات کر سکیںان کے مسائل اور اعتراض حل کر سکیں تاکہ بلوچستان میں امن بحال ہو اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جا سکے جس کی وجہ سے معاملات کافی بگڑے ہیں۔ بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے لیے امن کی راہ اپنانا مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے لیے بہتر ثابت ہو گا۔