ہم نے اے عشق تجھے اس لئے مرشد مانا


عین سے عشق اور غین سے غزل کی دائمی رفاقت ہے۔ عین، غین میں فطرتی لگن ہے۔ ہر سُو ان دونوں کی ہمراہی کے چرچے ہیں۔ عین اور غین رُو بہ وصال ہیں۔ گویا عین اور غین… عشق اور غزل لازم و ملزوم دکھائی دیتے ہیں۔ عین، غین سے خوب ظاہر ہوا۔ عشق نے ظاہر ہونے کے لئے غزل کا انتخاب کیا اور جواباََ غزل نے بھی عشق کو اپنے اندر تب و تاب کے ساتھ جذب کر لیا اور کسی صورت میں بھی خود سے جدا نہ ہونے دیا۔ عین غین کاچولی دامن کا ساتھ صاحبانِ حقیقت و معرفت اور اہلِ غزل پر خوب آشکار ہوا۔ ان صاحبان میں سید نوید حیدر ہاشمی کی ’’عشق سیّد ہے‘‘ کی صدا نے بازگشت کا رُوپ اختیار کر لیا ہے۔ وہ باخبر ہیں کہ عشق پارس پتھر ہے، جسے چُھونے والا طیب راہوں کا راہی ہو جاتاہے۔ عشق ہی ’احسنِ تقویم‘ کا پتا دیتا ہے ۔ بلاشبہ! عشق مرکزِ کائنات ہے۔ کوئی صاحبِ عشق اس کے اثر سے گریز نہیں کر سکا۔ سید نوید حیدر ہاشمی حضرتِ عشق سے متعلق کہتے ہیں:
عشق سیّد ہے کوئی معجزہ کر سکتا ہے
ہاتھ سے چُھو کے مجھے صاحبِ کردار کرے
ہم نے اے عشق تجھے اس لئے مرشد مانا
کس کی جرات ہے ترے سامنے انکار کرے
عشق کا اثر ان کی غزل سے بہ خوبی ظاہر ہے۔اس ضمن میں، انھی کے متن سے چند اشاریے ملاحظہ کیجیے: سید نوید حیدر ہاشمی کے ہاں بجھے چراغوں کا دھواں ہے، کھنڈر کی چیخیں ہیں۔ ہوا کے بھیس میں کوئی طمانچے مار رہا ہے۔ ان کے جسم کے نشان بلک رہے ہیں اور ان کے وجود میں زخموں کے پھول کھل رہے ہیں۔ محبوب کے حسن و جمال اور اس کی لَو سے ان کی بصارت پگھل رہی ہے۔ دیے کی لَو سے ان کا وصال ہوا ہے۔ ان کی ذات میں محبوب کی یادوں کا عرس جاری ہے۔ سید نوید حیدر ہاشمی کے ہاں زندگی نے جلتی زمین پر اپنا سر رکھ دیا ہے۔ زندگی بدن میں خاک اڑا رہی ہے اور کبھی اپنی راکھ اٹھا رہی ہے۔ ہجوم ہاتھ اٹھا اٹھا کر چیخ رہا ہے اور وہ سرِ دار فی امان اللہ کہہ رہے ہیں۔ ان کے ہاں افلاک سے پرے کے منظر بارے استفہام ہے۔ انھوں نے زخموں کو ہر دم ہرا رکھا ہے۔ عشق میں خود سے رعایت نہیں کی۔ وہ عزادار ہیں۔ ان کے لئے غم نعمت ہے۔ ان کی بنجر آنکھوں سے چشمہ  غم جاری ہوا ہے اور کس اذیت سے محبت کا بھرم ٹوٹا ہے۔ سرِ مسندِ عشق دل کی کرچیاں اس طور سے ٹوٹی ہیں، جیسے کوئی کانچ کا گھر ٹوٹا ہو۔ وہ خود کو جلتا ہوا دیا کہہ رہے ہیں۔ ان کے ہاں دہکتی آگ پر دھمال ڈالنے کا اظہار ہے۔ ان  کے دل کے مدینے میں کسی کی آمد ہے۔ وہ ہمہ وقت کسی کی دعا کے حصار میں ہیں۔ ان کے ہاں درُونِ جسم کوئی بین کر رہا ہے۔ رحلِ دل سے کتابِ غم کے گرنے کا ذکر ہے۔ غموں کی دھوپ ہے اور دھوپ کے لشکر سے ان کی جنگ ہے۔ وہ اپنے غم کے مزار پہ کھڑے آنسو بہا رہے ہیں۔ عشق نے انھیں لازوال کر دیا ہے۔ ان کا دل زمین پر بکھر گیا ہے اور آنکھیں محبوب کی راہ میں پڑی ہیں۔ ضابطوں کی لحد میں اترنے اور ہجر کے ہاتھوں مرنے کا ذکر بھی ہے۔ ان کے ہاں ہجر کی سُرخ آندھی چلتی ہے۔ ہجر سے متعلق ان کا خیال دیکھیے:
؎میں یہاں پر ہجر کی تبلیغ کرنے آیا ہوں
دنیا والو! میرا مذہب، میرا مقصد عشق ہے
؎اس کے جلتے ہی میں اندر سے پگھل جاتا ہوں
اب ترے ہجر کی قندیل سے ڈر لگتا ہے
؎میرے آنے پہ ترا ہجر بہت بولتا ہے
ایسے گستاخ کو محفل سے اٹھا دے، مرے عشق
سید نوید حیدر ہاشمی کے ہاں خواہشات کو نیلام کرنے کا اعلان ہے۔ رقص میں کسی کے ظہور کا اظہار ہے۔ دہکتی آگ انھیں دیکھ کر اُچھل رہی ہے۔ خواب ناچ رہے اور ان سے گلے مل رہے ہیں۔ وہ خود میں جھانک رہے اور کائنات ان کے ساتھ سفر کناں ہے۔ وہ زمین کی حد سے بہت دور نکل چکے ہیں، اب پلٹنا محال ہے۔ وہ باوضو ہو کر کسی کو رہ رہ کر یاد کررہے ہیں۔ وہ یاد ان پہ کسی آیت کی طرح اتر رہی ہے:
اس لئے کانپ رہا ہوں کہ سرِ شب تری یاد
ایک آیت کی طرح مجھ پہ اتاری گئی ہے
آنکھ میں آنے سے پہلے ہی ترے غم کی سپاہ
دل کے کُوفے سے گزرتی ہوئی ماری گئی ہے
سید نوید حیدر ہاشمی کی غزل دائمی غم کا اظہاریہ بھی ہے۔ بالفاظِ دیگر غزل نے غم کا رُوپ دھار لیا ہے۔ ان کی غزل میں کربل ہے۔ کربلائی لفظیات، تشبیہات اور استعاروں کی ایک کہکشاں ہے۔ بہتّر کے لفظ نے گویا ایک حصار کھینچ رکھا ہے۔ اس حصار میں نیزے پہ سَر ہے، کٹا ہوا بازو ہے، تیر ہے، زنجیر ہے۔ سُرخ نیزے ہیں، لہو ہے، لشکر ہے۔ سوگ اور سیاہ لباس ہے۔ ان کی غزل عشق اور غم کے مابین ہے۔ ہر دو کیفیات کا ایک جہان ہے۔سید نوید حیدر ہاشمی، جدید غزل کے باب میں، سِوا شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس ظفریابی کی جھلک ان کے اشعار سے ملاحظہ کیجیے:
میرا مکہ دشتِ ہجرت، میرا مشہد، عشق ہے
میں مُریدِ قیس ہوں اور میری سرحد، عشق ہے
کوئی ہے جو صبر کی آیات مجھ پر دَم کرے
میں وہ سوکھا پیڑ ہوں جس میں مقیّد، عشق ہے
سُرخ چادر لے کے بیٹھا ہے، زیارت کیجئے
یہ کوئی حاکم نہیں بالائے مسند، عشق ہے
پائوں میں زنجیر پہنے، آبلہ پائ، خوں میں تر
جا رہا ہے فخر سے جو، سُوئے مرقد، عشق ہے
میرا شجر جا کے ملتا ہے جنابِ ہجر سے
دشت ہے میرا ٹھکانہ، جدّ ِ امجد، عشق ہے

ای پیپر دی نیشن