یہ 26 رمضان المبارک 584 ہجری بمطابق چار جولائی 1187 کی ایک گرم اور حبس زدہ شام تھی ، حطین کے مقام پہ آگ اور خون کا ایک قہر آلود معرکہ جاری تھا دونوں لشکر بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پہ جنگی مہارت آزما رہے تھے فریقین میں سے ہر ایک اپنے مقصد پہ قربان ہونے کو تیار تھا آسمان نے شاید ہی اس سے قبل ایسا خونریز معرکہ دیکھا ہو اس جنگ میں فریقین کے شدت جذبات اور غیض و غضب نے بے پناہ ہولناکی پیدا کر دی تھی یہ انتہا ہائے ذوق موت و شدت جذبات بلا سبب نہ تھا اخرکار اس تاریخی معرکے نے بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا لیکن سلطان کے لیے یہ معرکہ فتح بیت المقدس سے کچھ بڑھ کر تھا سلطان کے آزمودہ سپاہی اور سالار بھی سلطان کی بے چینی کو محسوس کر رہے تھے دشمن کو خوب تھکا کر آخری لمحات میں انتہائی اطمینان سے کاری ضرب لگا کر میدان جنگ کا مکمل پانسہ پلٹنے والا سلطان کچھ جلد بازی میں لگ رہا تھا بلآخر تاریخ کا یہ خونریز ترین معرکہ اختتام پذیر ہوا، فریقین کے بھاری جانی نقصانات ہوئے تیس ہزار کے لگ بھگ مسیحی سپاہی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ کثیر تعداد میں قیدی بنا لیے گئے۔سلطان کے سامنے چند جنگی قیدی پیش کیے گئے ان میں فرانس کا دلیر صلیبی بادشاہ گائے آف لوسیگن،المارک دوئم،ولیم پنجم، پلیوان آف بتران اور ریجنالڈ آف سیڈان بھی تھے، گائے آف لوسیگن کو سلطان نے اپنے ہاتھ سے پانی پینے کیلئے دیا، لوسیگن نے تشکر آمیز نگاہوں سے سلطان کو دیکھا اور کچھ پانی پی لیا۔ تب رواج تھا کہ بادشاہ جسے اپنے ہاتھ سے پانی دیتا اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا گویا یہ جان بخشی کی علامت تھی۔ فرانسیسی بادشاہ کی تشکر آمیز نگاہوں کی یہی وجہ تھی۔ اسی دوران گائے آف لوسیگن نے اپنا آدھ پیا پانی ساتھ کھڑے کاؤنٹ آف سیڈان ریجنالڈ کو دے دیا جس نے فوراً وہ پانی پینا شروع کر دیا، اسے پانی پیتا دیکھ کر سلطان کے تن بدن میں آگ لگ گئی غیض و غضب سے بھرے سلطان نے ملعون ریجانلڈ کو ایسا زوردار تھپڑ رسید کیا کہ اس کے منہ سے لگا پیالہ دور جا گرا۔اتنے غیض و غضب کی وجہ یہ تھی کہ ریجنالڈ وہ بدبخت تھا جس نے حجاز مقدس پہ حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا اورقسم کھائی کہ مکہ کو فتح کر کے خانہ کعبہ کو مسمار کر دے گا جبکہ مدینہ کو تاراج کر ے گا مزید اس نے حجاز مقدس جانے والے حاجیوں کے پر امن قافلے پہ حملہ آور ہوکر کشت و خون کے دریا بہا دیے، عورتوں اور بچوں تک کو معاف نہیں کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے علم میں یہ بات آئی تو اس نے ہوا میں تلوار لہرا کر قسم کھائی کہ اس شاتم و گستاخ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔ اب جب ریجنالڈ سیر ہو کر پانی پی رہا تھا تو سلطان کے ذہن میں تمام واقعات کسی فلم کی طرح چل رہے تھے ،غیض وغضب قابو سے باہر ہوا جاتا تھا۔ سلطان کے تن بدن آگ لگی ہوئی تھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی آتش فشاں لاوہ اگلنے کو ہے۔ سلطان نے قہر آلود نگاہوں سے گائے آف لوسیگن کی طرف دیکھا اور گرج کر کہا کہ میں نے پانی تمھیں دیا تھا اسے نہیں۔ اس کیلیے کوئی معافی نہیں کوئی پناہ نہیں۔ قہر آلود سلطان بجلی کی مانند لپکا اور اسے گھسیٹتا ہوا خیمے سے باہر لے گیا سلطان کی تلوار بجلی کی طرح کوندی اور گستاخ ریجنالڈ کا سر ہوا میں اڑتا دکھائی دیا۔ سلطان گھٹنوں کے بل تلوار کے سہارے نیم بیٹھا ہوا تھا، چشم فلک نے پہلی بار ہمت و استقلال کے پہاڑ سلطان صلاح الدین ایوبی کو روتے دیکھا فرط جذبات سے سلطان دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا، سلطان کے جانباز لشکری بھی جذبات سے مغلوب اور آبدیدہ ہو کر حیرت ناک منظر دیکھ رہے حیرت زدہ قیدی بھی یہ ناقابل یقین منظر دیکھ رہے تھے کہ فاتح جشن منانے کی بجائے دھاڑیں مار کر رو کیوں رہا ہے وہ شاید حالت جذب کو نہیں پہچانتے تھے البتہ گائے آف لوسیگن کافی کچھ عاشق کے حال دل سے آشنا تھا اور اپنے کیے پہ شرمندہ بھی تھا۔سلطان کی ہیبت کے باعث کسی کو اس کے نزدیک جا کر تسلی دینے کی جرت نہ تھی مشکل ترین حالات میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑ جانے والا جانباز سلطان ابھی تک بلک بلک کر رو رہا تھا بلآخر سلطان کے بھائی ملک العادل نے ہمت سے کام لیا سلطان کے پاس جا کر تسلی دی اور قسم پوری ہونے کی مبارک باد پیش کی۔سلطان اٹھ کھڑا ہوا اور آسمان کی جانب تکنے لگا جیسے بارگاہ اقدس میں حاضر ہے اور ایسی سعادت بخشے جانے پر مشکور ہے اعصاب شکن خاموشی لیکن مؤدب ماحول جو وسعت آسماں تک پھیلا تھا سلطان کے ایفائے عہد اور حب رسول کی تاقیامت گواہی دینے کو تیار تھے ۔اب سلطان کو کچھ اطمینان ہوا تو وہ خود کو ذہنی طور پر جنگ کے بعد قیدیوں اور مال غنیمت کے متعلق اہم فیصلوں کیلیے تیار کر رہا تھا کہ منزل ہنوز دور تھی۔