فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت 


گذشتہ دنوں پشتو کے مشہور ریڈیو، سٹیج اور ٹی وی آرٹسٹ شبنم جلیل کا انٹرویو سُن کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا کیونکہ 5 مہینے موصوف کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں اس عظیم فنکار کا ہاتھ اور ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور ابھی بیماری کی وجہ سے انتہائی ناگفتہ بہہ زندگی گزار رہے ہیں۔ فنکار کے مطابق اس نے اپنی جمع پونجی اپنے علاج پر خرچ کی ۔ انہوں نے صحت کارڈ اور خیبر پختون خوا کے مخکمہ ثقافت ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ نہ تو میرا صحت کارڈ سے علاج ہوا  اور نہ خیبر پختون خوا مخکمہ ثقافت نے مجھے کچھ دیا۔ اور بیماری کے دوران جتنا خرچہ ہوا وہ میں نے اپنے جیب سے برداشت کیا۔ بات صرف پشتو کے مشہور شبنم جلیل کی نہیں بلکہ بات فلم ریڈیو ، ٹی وی ، سٹیج اور فلم کے فنکاروں، کیمرہ مین، رائٹر، فائٹر، ڈبنگ آرٹسٹ، سائونڈ ریکارڈسٹ کی ہے ۔ میں نے سوشل میڈیا  پرفنون لطیفہ سے وابستہ افراد کے ہزاروں انٹر ویو دیکھے ۔جو کام نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔کسی بھی فلا حی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے رعایا کو سر چُھپانے کی جگہ، تعلیم، صحت اور زوگارکا بندوبست کریں مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ وطن عزیز میں عوام اپنے لئے روزگار، سر چھپانے کی جگہ، تعلیم ،صحت اور دوسری ذمہ داریوں کا انتظام خود کرتے ہیں۔اور فلاحی معاملات میں ریاست کاکردار نہ ہونے کے برابر بلکہ عملاً صفر ہے۔اگر ہم غور کرلیں تو کسی بھی ملک اور معاشرے میں لکھاری، کالمنسٹ، شاعر اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حساس طبعیت کے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیںاوران کی یہی حساسیت اور دور اندیشی معاشرے کے کسی ایشو کو لیکر ایک اچھے کالم،فن پارے، موسیقی کی شکل میں تخلیق کا سبب بنتی ہے اور انکو جلا بخشتا ہے۔یہی لوگ ہمارے جذبوں اور رویوں کوایک مُثبت سمت لے جاکر اچھے شہری بننے میں اور خوش رکھنے کے لئے سارا سامان فراہم کرتے ہیں۔یو رپ اور مہذب دنیا میں اساتذہ کرام ، لکھاری آرٹسٹ اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ریاستی اور عوامی سطح پر انتہائی اچھا بر تائو کیا جاتا ہے اُنکی نظیر نہیں ملتی اور اُنکو جو مراعات اور سہولیات دی جاتی ہیں وہ کسی سے چوری چھپی نہیں۔مغرب کو چھوڑئے ہمارے پڑوسی بھارت اور بنگلہ دیش میں فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کے لئے بڑے بڑے ٹرسٹ کھولے گئے جو ان لوگوں کے لئے ہر قسم کی مالی اور اخلاقی  امداد اور مراعات کا اہتمام کرنے میں مدد گار اور معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے وطن عزیز اور بالخصوص خیبر پختون خوا میں فنکاروں کے ساتھ اچھا بر تائو نہیں کیا جاتا اور وہ عزت نہیں دی جاتی جن کے یہ مستحق ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا معروف مزحیہ اداکار مراد علی المعروف گل بالی ، غُربت افلاس ، دوائی اور علاج کے بغیر سسک سسک  اور ریڑھیاں رگڑ گڑ کر اس دنیا فانی کوچھوڑ گئے  ۔ پشتو اردو اور ھندکو کے مشہور و معروف آرٹسٹ نو شابہ اکلوتے بیٹے کے زندگی بچانے کے لئے دھاڑ دھاڑ اور چیخ چیخ کر صدر  اور وزیر اعظم سے  علاج کے لئے استد عا کرتی رہی . مشہور گلو کار گلاب شیر 90 سال کی عمر میں علاج معالجے اور غُربت کا رونا رو رو کر اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ریڈیو ٹی اور فلم کے مشہور اور معروف گلو کار ہدایت اللہ  جنہوں نے ریڈیو ، ٹی وی اور فلم میں ہزاروں گانے گاکر داد وصول کی وہ بھی دماغی توازن کھو کر زندگی کی آخری بازی ہار گئے۔ غزل کے شہنشاہ خیال محمد مختلف جسمانی عوارض میں مبتلاہیں اور حکومتی سطح پر اُنکی کوئی داد رسی نہیں کی گئی جسکے استاد خیال محمد حقدار ہیں۔  معروف کلو گار خان تحصیل بھی کئی سال بستر مرگ پر پڑے رہنے کے بعد ایڑیاں رگڑ رگڑ کراللہ میاں کو پیارے ہوگئے۔علاوہ ازیں مشہوٹی وی آرٹسٹ سدرہ، سید ممتاز علی شاہ، وگمہ، نا دیہ خیال،مشہور لکھاری م ر شفق، پشتو کے عطاء اللہ نیازی وحید گل شباب، اور اسکے علاوہ ایسے ہزاروں سنگرز ڈرامہ آرٹسٹ کالمنسٹ، ڈرامہ ، پلے وسکرپٹ رائٹر انتہائی ناگُفتہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔جہاں تک میرا حا فظہ ساتھ دیتا ہے تو خیبر پختون خوا کے سابق  وزیر اعلی نے اعلان کیا تھا کہ وہ فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لئے 500 ملین روپے کا ایک فنڈ قائم کریں گے جس سے آرٹسٹوں  اور فنون لطیفہ سے وابستہ افرادکو وظائف دئے جائیں گے۔مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وزیر اعلی کا وعدہ کب وفا ہوگا۔میں نے خیبر پختون خوا کے کلچر ڈیپارٹمنٹ سے بار بار رابطے کی کوشش کی مگر بادل نا خواستہ  مُجھے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ میں اس کالم کی تو سط سے خیبر پختون خوا کی حکومت سے استد عا کرتا ہوں کہ وہ اس حساس طبقے کو معاشرے میںجائز مقام دیں اور اس  حساس طبقے کو دوسری ضروریات پو را کرنے کے ساتھ اُنکے علاج معالجے ، بچوں کی تعلیم ، پنشن ، سر چُھپانے کی جگہ کا انتظام کریں اور انکو رونے پر مزید مجبور نہ کریں۔  وفاقی حکومت اور خیبر پختون خوا کی حکومت سے استد عا ہے کہ وہ تحصیل اور ضلعے کے لیول پر فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کی ایک ڈائریکٹری بنائیں اور ان لوگوں کی ہر ممکن امداد کو یقینی بنائیں ۔بات صرف ان چند فنکاروں کی نہیں بلکہ اس معاشرے میں ہمارے ارد گرد ایسے لاکھوں  فنکار شاعر، ادیب اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ ہیں جو غُربت اور افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن